واشنگٹن —
حقوق انسانی سے متعلق اقوام ِمتحدہ کی ہائی کمشنر، نوی پلے نے بدھ کے روز پاکستان میں عدالت کے احاطے میں پسند کی شادی کرنے والی 25 سالہ حاملہ خاتون کے غیرت کے نام پر قتل کی شدید مذمت کی ہے، اور حکومت ِپاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ غیرت کے نام پر قتل کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے خاطرخواہ اقدامات کرے۔
نوی پلّے کے بقول، ’مجھے فرزانہ پروین کی موت سے شدید دکھ پہنچا ہے، جسے پاکستان کی دیگر بہت سی خواتین کی طرح اپنے ہی خاندان کی جانب سے غیرت کے نام پر بہیمانہ طور پر صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس نے اپنے پسند کے جیون ساتھی کا اتنخاب کیا تھا‘۔
نوی پلے کا مزید کہنا تھا کہ، ’میں اس قتل کے لیے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی اصطلاح بھی استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ کسی بھی عورت کو اس انداز میں قتل کرنا قطعی طور پر غیرت کا کام نہیں‘۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، مقتولہ فرزانہ پروین کے خاندان کے 20 سے زائد افراد نے، جن میں ان کے والد اور دو بھائی بھی شامل تھے، اس وقت احاطہ ِعدالت میں فرزانہ اور ان کے شوہر پر حملہ کیا جب وہ لاہور ہائی کورٹ میں اس کیس سے متعلق سماعت کے لیے آئے، جس میں فرزانہ کے والد نے فرزانہ کے شوہر پر الزام لگایا تھا کہ اس نے فرزانہ کو اغواء کر لیا ہے اور یہ کہ ان کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘۔
نوی پلّے کا کہنا تھا کہ، ’پاکستان میں ہر برس غیرت کے نام پر سینکڑوں خواتین کو پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا جاتا ہے‘۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گذشتہ برس پاکستان میں 869 خواتین کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کر دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک محتاط اندازہ ہے اور یہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتے ہیں جہاں غیرت کے نام پر قتل کو حادثہ قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر سرے سے ہی رپورٹ نہیں کیا جاتا۔
نوی پلّے نے کہا ہے کہ، ’پاکستانی حکومت کو اس بارے میں جلد اور ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے‘۔
بقول اُن کے، ’چونکہ پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کرنے والوں کو بہت کم سزا ملتی ہے، اس لیے معاشرے میں یہ رجحان ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ قابل ِ قبول نہیں ہے اور یہ ریاست اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کے جرائم کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ جو لوگ یہ گھناؤنا عمل کرتے ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے‘۔
نوی پلّے کے بقول، ’مجھے فرزانہ پروین کی موت سے شدید دکھ پہنچا ہے، جسے پاکستان کی دیگر بہت سی خواتین کی طرح اپنے ہی خاندان کی جانب سے غیرت کے نام پر بہیمانہ طور پر صرف اس لیے قتل کر دیا گیا کہ اس نے اپنے پسند کے جیون ساتھی کا اتنخاب کیا تھا‘۔
نوی پلے کا مزید کہنا تھا کہ، ’میں اس قتل کے لیے ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی اصطلاح بھی استعمال نہیں کرنا چاہتی۔ کسی بھی عورت کو اس انداز میں قتل کرنا قطعی طور پر غیرت کا کام نہیں‘۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، مقتولہ فرزانہ پروین کے خاندان کے 20 سے زائد افراد نے، جن میں ان کے والد اور دو بھائی بھی شامل تھے، اس وقت احاطہ ِعدالت میں فرزانہ اور ان کے شوہر پر حملہ کیا جب وہ لاہور ہائی کورٹ میں اس کیس سے متعلق سماعت کے لیے آئے، جس میں فرزانہ کے والد نے فرزانہ کے شوہر پر الزام لگایا تھا کہ اس نے فرزانہ کو اغواء کر لیا ہے اور یہ کہ ان کی شادی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘۔
نوی پلّے کا کہنا تھا کہ، ’پاکستان میں ہر برس غیرت کے نام پر سینکڑوں خواتین کو پسند کی شادی کرنے کی پاداش میں قتل کر دیا جاتا ہے‘۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کے مطابق گذشتہ برس پاکستان میں 869 خواتین کو ’غیرت کے نام پر قتل‘ کر دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق یہ ایک محتاط اندازہ ہے اور یہ اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ بھی ہو سکتے ہیں جہاں غیرت کے نام پر قتل کو حادثہ قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر سرے سے ہی رپورٹ نہیں کیا جاتا۔
نوی پلّے نے کہا ہے کہ، ’پاکستانی حکومت کو اس بارے میں جلد اور ٹھوس اقدامات اٹھانا ہوں گے‘۔
بقول اُن کے، ’چونکہ پاکستان میں ’غیرت کے نام پر قتل‘ کرنے والوں کو بہت کم سزا ملتی ہے، اس لیے معاشرے میں یہ رجحان ختم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ یہ قابل ِ قبول نہیں ہے اور یہ ریاست اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قسم کے جرائم کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ جو لوگ یہ گھناؤنا عمل کرتے ہیں، انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے‘۔