امریکی کشمیری تنظیموں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے مقامی نمائندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج کے داخلے کی 63 ویں برسی پر بدھ کو نیو یارک میں یوم سیاہ منایا اور اقوام متحدہ کے سامنے مظاہرہ کیا۔
پاکستان سے آئے ہوئے جموں و کشمیر پیپلز مسلم لیگ کے صدر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے بھی مظاہرے میں شرکت کی اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے لیے ایک یادداشت پیش کی۔
اس یادداشت میں انہوں نے سلامتی کونسل کی کشمیر پر سن 1948 اور 1949 میں منظور کی گئی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری جنرل کشمیر کے موجودہ حالات کے حل کے لیے آگے بڑھ کر اقدامات کریں۔
انہوں نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ اگلے چند روز میں امریکہ محکمہ خارجہ کے اعلٰی اہلکاروں سے ملاقاتیں کریں گے اور درخواست کریں گے کہ صدر براک اوباما اپنے بھارتی دورے میں کشمیر بھی جائیں یا کم از کم کشمیری لیڈروں سے ملاقات کریں۔
بیرسٹر سلطان نے امریکہ کو پیغام دیا کہ افغانستان کی صورتحال اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتی جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ کرا دیا جائے، کیونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس مسئلے کے ہوتے ہوئے تعاون کا کوئی امکان نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب نہ صرف دنیا بلکہ خود بھارت کو احساس ہو گیا ہے کہ جون سے کشمیر میں جاری مظاہرے، کشمیریوں کے اپنے جذبات کے ترجمان ہیں اور ان میں کوئی بیرونی طاقت ملوث نہیں۔
بھارت نے ہمیشہ اقوام متحدہ یا امریکہ کی کشمیر کے معاملے میں مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر ان کا اندرونی معاملہ ہے جسے حل کرنے کے لیے انہیں کسی عالمی طاقت کی مداخلت یا ثالثی منظور نہیں۔
بھارتی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے باقاعدہ انتخابات ہو رہے ہیں اور عوام اپنی حکومت خود منتخب کرتے ہیں جس کی وجہ سے اب کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔