روس نےیوکرین کے مشرق میں اپنی سرحد پر فوجیوں کی تعیناتی میں اضافہ کردیا ہے جس سے سرحد پار فائرنگ یا ماسکو کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی مدد کے لیےممکنہ مداخلت کے متعلق خدشات بڑھ گئے ہیں۔
یوکرین کی افواج کا باغیوں کے گرد حصار بڑھتا جا رہا ہے جب کہ ماسکو کی طرف سے سرحد پر کی جانے والی پیش رفت کی تصدیق نیٹو اور امریکی عسکری عہدیداروں نے کی ہے۔
نیٹو کے ایک عہدیدار کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ’’اگست کے اوائل میں روس نے اپنی سرحد کے قریب افواج کی تعداد میں واضح اضافہ کیا۔ ہمارے موجودہ اندازے کے مطابق اس علاقے میں 20 ہزار فوجی ہیں اور ان کے ساتھ ٹینک، انفنٹری، آرٹلری، ایئیر ڈیفنس، خصوصی فورسز اور مختلف طیارے شامل ہیں۔‘‘
یوکرین کی قومی سلامتی و دفاع کونسل کے ترجمان اینڈرے لیسنکو کے بقول سرحد پر روسی فوجیوں کی تعداد 45 ہزار ہے جن کی طرف سے پیر کو سرحد پار یوکرین کی پوزیشنز کو راکٹوں سے نشانہ بنایا گیا۔
ادھر روس نے پیر سے ملک کے وسطی اور مغربی خطوں میں فوجی مشقیں شروع کیں جن میں یوکرین کی سرحد سے ملحقہ علاقے بھی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق ان پانچ روزہ مشقوں میں 100 سے زائد لڑاکا طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی حصہ لے رہے ہیں۔
افواج کی باغیوں کے باقی رہ جانے والے دو مضبوط گڑھ ڈونٹسک اور لوہانسک کی جانب پیش قدمی سے کیئف نے خدشہ ظاہر کیا کہ روس یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔
دریں اثناء روسی صدر ولادیمر پیوٹن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی کابینہ سے کہا ہے کہ وہ ماسکو کے خلاف مغربی پابندیوں کے جواب تیار کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ روسی معیشت کے خلاف ’’سیاسی دباؤ کے ہتھیار‘‘ استعمال کرنا ’’ناقابل قبول‘‘ ہے۔ تاہم روسی رہنما کے مطابق اس اقدام کا جواب ’’بڑی احتیاط‘‘ سے دیا جائے گا۔
امریکہ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے روس کے حمایت یافتہ باغیوں پر الزام لگایا ہے کہ ان کے طبی امداد فراہم کرنے والے کارکنوں اور تنصیبات پر کارروائیوں سے انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کرنے کی صورتحال زیادہ خراب ہوئی ہے۔
ایک بیان میں تنظیم کا کہنا تھا کہ بظاہر یوکرین کی فورسز کی طرف سے مارٹر گولے کے فائر سے دو کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔