اسلام آباد —
ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں رہنے والی خواتین یورپی دنیا کے بہت سے ملکوں کی نسبت سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہوئی ہیں۔
جائزہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ برطانوی خواتین کی لگ بھگ نصف تعداد کو مختلف اقسام کی بدسلوکی اور جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یورپی یونین کے بنیادی انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے بدھ کے روز شائع ہونے والی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں پر تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے اعتبار سے برطانیہ یورپی یونین کا سب سے متاثرہ ملک ہے ۔
ڈیلی میل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں 15 برس کی عمر کے بعد سے تشدد اور زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کی تعداد 44 فیصد ہے اس کے مقابلے میں یورپی یونین میں بالعموم متاثرہ لڑکیوں کی تعداد لگ بھگ33 فیصد ہے۔
عورتوں پرہونے والےتشدد کےواقعات کے لحاظ سے برطانیہ کو یورپی یونین کا پانچواں بدترین ملک بتایا گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر جسمانی اورجنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے جب کہ عورتوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کے لحاظ سے بد ترین ممالک میں ڈنمارک، سویڈن ،فن لینڈ اور نیدرلینڈ کو شامل کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق (ایف آر اے) کی جانب سے خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے اس رپورٹ کو دنیا کی سب سے بڑی ریسرچ رپورٹ قرار دیا گیا ہےجس میں خواتین کےخلاف حقیقی تشدد کی تصویرکو بے نقاب کیا گیا ہے۔
اس مطالعہ میں یورپی یونین کے 28رکن ممالک سے تعلق رکھنے والی 42 ہزار عورتوں کا انٹرویو لیا گیا جن کی عمریں 18 اور 74 برس کے درمیان تھیں ،حاصل کردہ نتیجے سے معلوم ہوا کہ رکن ممالک میں ایک تہائی خواتین 16 برس کی عمر کے بعد سے مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہوئیں۔
برطانیہ میں یورپی یونین کی اوسط کے مقابلے میں خواتین کے لیے حالات زیادہ بد تر رہے اور تشدد کے مختلف زمرے میں انھیں یورپی یونین کے رکن ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ جسمانی اور جنسی مظالم برداشت کرنے پڑے ۔
رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، عورتوں کے خلاف بدترین جسمانی اور جنسی زیادتی کے واقعات کے لحاظ سے برطانیہ کا نمبر چوتھا ہے جہاں ظلم کا شکار بننے والی 29 فیصدخواتین نے بتایا کہ انھیں ان کے موجودہ یا سابقہ ساتھی کی طرف سے تشدد برداشت کرنا پڑا جب کہ، یورپی یونین میں اس قسم کے تشدد کی اوسط شرح 22 فیصد رہی۔
اسی طرح برطانیہ میں رہنے والی 30 فیصد عورتوں نے بتایا کہ انھیں نامعلوم شخص کی طرف سے ظلم کا شکار بنایا گیا تاہم یورپی یونین کی اوسط 22 فیصد کے مقابلے میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے ۔
دریں اثناء یورپی یونین کے اعداد و شمار میں 15 برس سے قبل تشدد کا سامنا کرنے والی 35 فیصدلڑکیوں کےمقابلے میں برطانیہ میں اس عمر میں جسمانی مظالم کا شکار بنائی جانے والی لڑکیوں کی تعداد 40 فیصد رہی ۔
علاوہ ازیں یورپی یونین کی رپورٹ کےمطابق، 12 فیصد بچیاں 15 برس سے قبل جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں جب کہ برطانیہ میں یہ شرح 18 فیصد کے قریب رہی۔
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈنمارک میں 52 فیصد خواتین نے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار بنائے جانے کا انکشاف کیا اس کے بعد فن لینڈ کا نمبر ہے جہاں 47 فیصد خواتین نے جسمانی مظالم سہنے کا اعتراف کیا اسی طرح سویڈن میں 46 فیصد خواتین اور نیدرلینڈ میں45 فیصد خواتین کو جبراً جسمانی اذیت پہنچائی گئی۔
ایف آر اے کی ڈائریکٹر مورٹن کیثروم نے کہا کہ یورپ بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ انتہائی افسوسناک صورت حال کو بیان کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ،''عورتوں کے خلاف جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد تمام یورپی یونین کے رکن ممالک میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کو ظاہر کرتا ہے اس حقیقت سےعورتوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں لیکن اس قسم کے واقعات حکام کی جانب سے منعظم طریقے سے رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔
جائزہ رپورٹ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہےکہ برطانوی خواتین کی لگ بھگ نصف تعداد کو مختلف اقسام کی بدسلوکی اور جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یورپی یونین کے بنیادی انسانی حقوق کے ادارے کی جانب سے بدھ کے روز شائع ہونے والی جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں پر تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے اعتبار سے برطانیہ یورپی یونین کا سب سے متاثرہ ملک ہے ۔
ڈیلی میل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ برطانیہ میں 15 برس کی عمر کے بعد سے تشدد اور زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکیوں کی تعداد 44 فیصد ہے اس کے مقابلے میں یورپی یونین میں بالعموم متاثرہ لڑکیوں کی تعداد لگ بھگ33 فیصد ہے۔
عورتوں پرہونے والےتشدد کےواقعات کے لحاظ سے برطانیہ کو یورپی یونین کا پانچواں بدترین ملک بتایا گیا ہے جہاں بڑے پیمانے پر جسمانی اورجنسی زیادتی کے واقعات رونما ہوئے جب کہ عورتوں کے خلاف تشدد کی کارروائیوں کے لحاظ سے بد ترین ممالک میں ڈنمارک، سویڈن ،فن لینڈ اور نیدرلینڈ کو شامل کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی ایجنسی برائے بنیادی حقوق (ایف آر اے) کی جانب سے خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے اس رپورٹ کو دنیا کی سب سے بڑی ریسرچ رپورٹ قرار دیا گیا ہےجس میں خواتین کےخلاف حقیقی تشدد کی تصویرکو بے نقاب کیا گیا ہے۔
اس مطالعہ میں یورپی یونین کے 28رکن ممالک سے تعلق رکھنے والی 42 ہزار عورتوں کا انٹرویو لیا گیا جن کی عمریں 18 اور 74 برس کے درمیان تھیں ،حاصل کردہ نتیجے سے معلوم ہوا کہ رکن ممالک میں ایک تہائی خواتین 16 برس کی عمر کے بعد سے مختلف اقسام کے تشدد کا شکار ہوئیں۔
برطانیہ میں یورپی یونین کی اوسط کے مقابلے میں خواتین کے لیے حالات زیادہ بد تر رہے اور تشدد کے مختلف زمرے میں انھیں یورپی یونین کے رکن ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ جسمانی اور جنسی مظالم برداشت کرنے پڑے ۔
رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، عورتوں کے خلاف بدترین جسمانی اور جنسی زیادتی کے واقعات کے لحاظ سے برطانیہ کا نمبر چوتھا ہے جہاں ظلم کا شکار بننے والی 29 فیصدخواتین نے بتایا کہ انھیں ان کے موجودہ یا سابقہ ساتھی کی طرف سے تشدد برداشت کرنا پڑا جب کہ، یورپی یونین میں اس قسم کے تشدد کی اوسط شرح 22 فیصد رہی۔
اسی طرح برطانیہ میں رہنے والی 30 فیصد عورتوں نے بتایا کہ انھیں نامعلوم شخص کی طرف سے ظلم کا شکار بنایا گیا تاہم یورپی یونین کی اوسط 22 فیصد کے مقابلے میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے ۔
دریں اثناء یورپی یونین کے اعداد و شمار میں 15 برس سے قبل تشدد کا سامنا کرنے والی 35 فیصدلڑکیوں کےمقابلے میں برطانیہ میں اس عمر میں جسمانی مظالم کا شکار بنائی جانے والی لڑکیوں کی تعداد 40 فیصد رہی ۔
علاوہ ازیں یورپی یونین کی رپورٹ کےمطابق، 12 فیصد بچیاں 15 برس سے قبل جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں جب کہ برطانیہ میں یہ شرح 18 فیصد کے قریب رہی۔
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈنمارک میں 52 فیصد خواتین نے جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار بنائے جانے کا انکشاف کیا اس کے بعد فن لینڈ کا نمبر ہے جہاں 47 فیصد خواتین نے جسمانی مظالم سہنے کا اعتراف کیا اسی طرح سویڈن میں 46 فیصد خواتین اور نیدرلینڈ میں45 فیصد خواتین کو جبراً جسمانی اذیت پہنچائی گئی۔
ایف آر اے کی ڈائریکٹر مورٹن کیثروم نے کہا کہ یورپ بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ انتہائی افسوسناک صورت حال کو بیان کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ،''عورتوں کے خلاف جسمانی، جنسی اور نفسیاتی تشدد تمام یورپی یونین کے رکن ممالک میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کو ظاہر کرتا ہے اس حقیقت سےعورتوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں لیکن اس قسم کے واقعات حکام کی جانب سے منعظم طریقے سے رپورٹ نہیں کیے جاتے ہیں۔