رسائی کے لنکس

’چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، یہ نظرِ ثانی کا درست وقت ہے‘


پاکستان کی عدالت عظمیٰ۔ فائل فوٹو
پاکستان کی عدالت عظمیٰ۔ فائل فوٹو

پاکستان کی سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان اختلاف رائے کا معاملہ مزید بڑھ گیا ہے ۔سپریم کورٹ کے دو ججوں نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دیے گئے فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے الیکشن کمیشن از خود نوٹس کیس میں اختلافی فیصلہ دیا ہے۔

دو نوں ججوں کا کہنا ہے کہ اس بینچ سے الگ ہونے والے دو ججوں کو فیصلہ سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ نو رکنی بینچ میں سے دو ججز از خود الگ ہوئے جب کہ باقی سات رکنی بینچ کے فیصلے کو ان دو ججز نے تسلیم کیا جس کے بعد بظاہر چار کے مقابلہ میں تین ججوں کا فیصلہ مسترد کر دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے دو ججوں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا انتخابات کیس کے فیصلے کا اختلافی نوٹ سامنے آیا ہے جس میں دونوں ججوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کو وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے۔ یہ درست وقت ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظرِ ثانی کی جائے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس لیا تھا۔

اس از خود نوٹس کیس میں نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تاہم بعد ازاں دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے حکومتی جماعتوں کے اعتراض کے بعد کیس سننے سے معذرت کرلی تھی۔

ان دو ججوں کے علاوہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے از خود نوٹس کے دائرہ اختیار پر بات کی تھی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ میں اس پٹیشن کو مسترد کر دیا تھا جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ میں رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ چیف جسٹس پر چھوڑ دیا تھا جس کے بعد انہیں بینچ سے الگ کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے کے بعد پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی اور کئی سماعتوں کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔

اس وقت کے لارجر بنچ میں شامل دو ججز جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصورعلی شاہ نے فیصلے اور ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا جن کا تحریری فیصلہ پیر کو سامنے آیا ہے۔

چیف جسٹس کو از خود نوٹس کا اختیار

جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق تحریری فیصلے میں اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ چیف جسٹس کے پاس از خود نوٹس لینے اور اسپیشل بینچ بنانے کے وسیع اختیارات ہیں، جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی ہے اور اس کی عزت و تکریم میں کمی واقع ہوتی ہے۔

ان دونوں کے مطابق یہ درست وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظرِ ثانی کی جائے۔

تفصیلی فیصلے میں دونوں ججوں نے کہا ہے کہ ججوں کو ان کی مرضی کے برعکس بینچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں ہے۔ دو معزز ججوں نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بینچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑا تھا لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے۔

ججوں نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ عدالت کا دائرۂ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججوں کی خواہش اور آسانی طے کی جائے۔

فیصلہ کے اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرۂ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی ہے نہ کہ اس سے جڑے مفادات۔ ججوں کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے۔ عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو۔ ہائی کورٹس میں کیس زیر التوا ہونے کے باوجود سووموٹو لیا گیا۔

ججوں نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ بہترین وقت ہے کہ چیف جسٹس کے" ون مین شو "سے لطف اٹھانے کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ چیف جسٹس کے فیصلے کرنے کے اکیلے اختیارات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس کے اختیارات فل کورٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہونے چاہئیں۔

فیصلہ کتنے ججز کا ہے؟

اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ بینچ کی تبدیلی جج کی معذرت یا رولز کے خلاف تشکیل ہونے پر ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں بینچ معاملہ چیف جسٹس کے سامنے رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ کاز لسٹ جاری ہو جائے تو چیف جسٹس بینچ تبدیل نہیں کر سکتے۔ بینچ میں اختلافی آواز دبانے کی کوشش سے غیرجانب دار عدالتی نظام کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ ابتدا میں ہی حتمی فیصلہ دینے کا مطلب جج کا بینچ سے الگ ہونا یا سماعت سے معذرت نہیں ہوتا۔

یاد رہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنا اختلافی نوٹ دیتے ہوئے اس از خود نوٹس کو مسترد کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ججوں کو بینچ سے الگ کرنے کے چیف جسٹس کے فیصلے کا اُن کے عدالتی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ بینچ کی از سر نو تشکیل انتظامی فیصلہ تھا تاکہ باقی پانچ جج مقدمہ سن سکیں۔ بینچ کی از سر نو تشکیل دونوں ججوں کے عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کر سکتی۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی خود بینچ سے الگ ہوئے تھے۔ دونوں کو بینچ سے نکالا نہیں گیا تھا۔ بینچ سے الگ ہونے والے ججوں کا انتظامی فیصلہ کیس ریکارڈ کا حصہ ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے الگ کرنا انہیں بینچ سے نکالنے کے مترادف ہوگا۔ ججز کو ان کی مرضی کے بغیر بینچ سے نکالنے کا اختیار نہ چیف جسٹس کو ہے نہ ہی قانون میں اس کی اجازت ہے۔

پانامہ کیس کا حوالہ

اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ابتدائی فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا تھا۔ اختلافی نوٹ دینے والے دونوں جج پانامہ کیس کی دیگر کارروائی کا حصہ نہیں بنے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پانامہ کے حتمی فیصلے میں پانچوں جج موجود تھے۔ شروع میں حتمی فیصلہ دینے والے ججوں کو پانامہ بینچ سے الگ تصور نہیں کیا گیا تھا۔ پانامہ کیس میں فیصلہ تین ججز کا تھا۔ نظرِ ثانی کی اپیل تمام پانچ ججوں نے سنی تھی۔

یکم مارچ کو کیا فیصلہ آیا تھا؟

رواں ماہ یکم مارچ کو آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے الیکشن از خود نوٹس کیس میں 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن میں تاخیر پر از خود نوٹس کے فیصلے میں کہا کہ پنجاب اور خیبرپختوانخوا میں 90 روز میں الیکشن کرائے جائیں۔گورنر کے حکم پر اسمبلی تحلیل ہوئی ہے تو گورنر الیکشن کی تاریخ دیں۔

اس وقت کی صورتِ حال میں کہا گیا تھا کہ پانچ رکنی بینچ نے تین دو کے تناسب سے فیصلہ دیا تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر نے ازخود نوٹس کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست جب کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن گورنر اور صدر کے ساتھ مشاورت کا کرنے کا پابند ہے۔ صدر نے نو اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس صورتِ حال میں الیکشن کمیشن نے اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ نو اپریل کو انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ تبدیل کی جاسکتی ہے۔

عدالت نے کہا کہ یہ وفاق کی ذمہ داری ہے کہ انتخابات کرانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وفاق پر لازم ہے کہ ایگزیکٹو اتھاریٹیز الیکشن کمیشن کی مدد کریں۔ گورنر خیبر پختونخوا فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں جب کہ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکیورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں۔

خیال رہے کہ حکومتی جماعت مسلم لیگ (ن) عدالتی فیصلے پر تنقید کرتی رہی ہے۔ اتوار کو مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر اور چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا تھا کہ الیکشن کے بارے میں تین چار کے تناسب سے فیصلہ آیا تھا اور اب ان دو ججز کے اختلافی نوٹ کے بعد، جس میں انہوں نے مزید دو ججز کے فیصلہ کے حق میں بات کی ہے، بظاہر یہ فیصلہ چار تین کا نظر آ رہا ہے۔ لیکن کیا اس کو ایسے ہی دیکھا جائے گا یا پھر معاملہ ایک بار پھر عدالت میں جائے گا؟

اس بارے میں حزبِ اختلاف کی جماعت تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے ایک بیان میں اختلافی فیصلہ دینے والے جج جسٹس منصور علی شاہ کے حوالے سے کہا کہ منصور علی شاہ میرے استاد ہیں بڑے بھائیوں کی طرح ہیں۔ میں نے پوچھا آپ جج کیوں بننا چاہتے ہیں؟ وکیل کے طور پر آپ کی اتنی پریکٹس ہے۔ انہوں نے کہا دیکھو وکیل صرف اپنے مؤکل کا تحفظ کرتاہے۔ جج عوام کے لیے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ دیکھتے ہیں وہ کہاں کھڑے ہوتے ہیں؟ اب تک تو مایوس کیا ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ اس اختلافی فیصلے کے آنے سے کوئی پنڈورا باکس نہیں کھلا ہے، یہ اقلیتی فیصلہ ہے۔

XS
SM
MD
LG