رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ کا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم


سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے منگل کو از خود نوٹس کیس میں محفوظ کیا گیا فیصلہ بدھ کی صبح سنایا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہے تو الیکشن کی تاریخ بھی وہ دے۔ گورنر نے انتخابات کی تاریخ نہ دے کر آئین سے انحراف کیا۔ پنجاب اسمبلی گورنر نے تحلیل نہیں کی، لہذٰا صدرِ مملکت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سیکشن 57 کے تحت انتخابات کی تاریخ دیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق صدرِ مملکت کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار حاصل ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ تجویز کرے اور اسے صدرِ مملکت کو بھجوائے۔ وفاق الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے وسائل فراہم کرے۔

دو ججز کا اختلافی نوٹ

چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر نے 90 روز کے اندر الیکشن کرانے جب کہ دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ دیا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسے معاملات میں ازخود نوٹس سے متعلق آرٹیکل 184/3 استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے۔

کیس کی سماعت کرنے والے بینچ نے صدر کے اختیارات، گورنر کی ذمہ داری، اسمبلی کی تحلیل اور انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے اختیارات کے حوالے سے کئی آئینی و قانونی سوالات اٹھائے تھے۔

اس کیس کی سماعت میں اٹارنی جنرل، سپریم کورٹ بار کے صدر، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علماء اسلام (ف) اور تحریکِ انصاف کے وکلا سمیت دیگر نے دلائل دیے۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے دونوں صوبوں میں انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔

منگل کو سماعت کے دوران عدالت نے تمام سیاسی جماعتوں کے وکلا کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے موکلوں سے انتخابات کی تاریخ سے متعلق رائے لیں اور عدالت کو تجاویز سے آگاہ کریں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر سپریم کورٹ کے دو ججز کی تجویز پر 22 فروری کو از خود نوٹس لیا تھا جب کہ 23 فروری سے اس کی سماعت کا اعلان کیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ میں دو صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کا معاملہ 16 فروری کو لاہور کے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) غلام محمد ڈوگر کے تبادلے کے حوالے سے دائر پٹیشن کے دوران سامنے آیا تھا۔ اس کیس کی سماعت جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کررہے تھے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس معاملے پر از خود نوٹس پر ابتدا میں نو رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس میں ان کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی،جسٹس جمال خان مندو خیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔

چیف جسٹس کے بعد سینئر موسٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کو اس بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔

بعد ازاں مسلم لیگ (ن) سمیت حکومت میں شامل جماعتوں نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی کی بینچ میں شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نو رکنی بینچ نے 25 فروری کو از خود نوٹس کیس پر سماعت کرنا تھی۔ تاہم اس معاملے پر سماعت سے قبل 23 فروری کو ہونے والی سماعت کا مختصر فیصلہ جاری ہوا جس میں جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے اختلافی نوٹ سامنے آئے۔

اختلافی نوٹ تحریر کرنے والے دو ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا جب کہ دیگر دو ججز بدستور بینچ کا حصہ رہے۔

اسی طرح جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی بھی کیس سے الگ ہو گئے تھے جن کی شمولیت پر حکومت میں شامل بعض سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا۔

اس کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے از خود نوٹس پر سماعت کی۔

XS
SM
MD
LG