رسائی کے لنکس

ٹلرسن ' 30 مارچ کو ترکی کا دورہ کریں گے'


امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن ( فائل فوٹو)
امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن ( فائل فوٹو)

ڈونلڈ ٹرمپ کے رواں سال جنوری میں منصب صدرات پر فائز ہونے کے بعد انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان یہ سب سے اعلیٰ سطحی رابطہ ہو گا۔

ترکی کے وزیر خارجہ نے کہا ہے امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن ممکنہ طور پر 30 مارچ کو ترکی کا دورہ کریں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے رواں سال جنوری میں منصب صدرات پر فائز ہونے کے بعد انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان یہ سب سے اعلیٰ سطحی رابطہ ہو گا۔

امریکہ اور ترکی کے درمیان تعلقات براک اوباما کی انتظامیہ کے آخری سال کے دوران کشیدہ ہو گئے تھے۔ ترکی نیٹو اتحاد میں بھی شامل ہے اور شام و عراق میں امریکہ کی قیادت میں شدت پسند گروپ داعش کے خلاف لڑائی میں اس کا اہم کردار ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ مولوداغلو نے ترکی کے ٹی وی چینل 'ہیبر ترک' کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ "ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ وہ 30 مارچ کو ترکی آنا چاہیں گے۔"

مولود نے مزید کہا کہ "میں نے انہیں بتایا ہے کہ ہم انقرہ میں ہوں گے ۔۔۔اور ان کی میزبانی کر کے ہمیں خوشی ہو گی۔"

ٹلرسن اس دورے کے دوران ممکنہ طور پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان اور وزیر اعظم بن علی یلدرم سے بھی ملاقات کریں گے۔

اردوان اور ترکی کی حکومت اس بات کی متمنی ہے کہ امریکہ اپنے ہاں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن کو ملک بدر کرے۔ انقرہ کی طرف سے فتح اللہ گولن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ سال ترکی میں ہونے والی ناکام بغاوت میں ملوث تھے۔ فتح اللہ گولن تواتر کے ساتھ اس الزام کو مسترد کر چکے ہیں۔

ترکی کو امریکہ کی طرف سے داعش کے خلاف برسر پیکار کرد ملیشیا (وائی پی جی) کی حمایت پر تشویش ہے۔

ترکی کا اصرار ہے کہ واشنگٹن رقہ کے خلاف کارروائی کے لیے وائی پی جی کی حمایت کرنے کی بجائے ان شامی باغیوں کی حمایت کرے جنہیں ترکی نے ٹریننگ فراہم کی ہے۔

تاہم امریکی انتظامیہ کو اس بات پر تشویش ہے کہ کیا ترکی کی حمایت یافتہ فورس اتنی بڑی اور مناسب طور پر تربیت یافتہ ہے کہ وہ داعش کو شکست دے سکتی ہے۔

دوسری طرف صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ داعش کو بہت جلد شکست دی جائے اور اس کے لیے امریکہ کا ترکی کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو برقرار رکھنا اہم ہے۔

ترکی ’وائی پی جی‘ کو شدت پسند کردستان ورکرز پارٹی یعنی 'پی کے کے' کا ہی حصہ سمجھتا ہےجو ترکی کے جنوب میں ترکی فوسز کے خلاف برسرپیکار ہے اور جسے ترکی، یورپی یونین اور امریکہ ایک دہشت گرد گروپ خیال کرتے ہیں۔

ترکی کے صدر طیب اردوان کا خیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ترکی اور امریکہ کے تعلقات میں بہتر ی آئے گی۔

اردوان کے دفتر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشہ ماہ دونوں راہنماؤں کے درمیان فون پر ہونی والی گفتگو مثبت تھی۔

XS
SM
MD
LG