شام میں تشدد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ کے روز ترکی نے مشترکہ سرحد پر ملک میں داخلے کے اہم راستے پناہ گزینوں کے سوا بقیہ تمام ٹریفک کے لیے بند کر دیے۔ ترک عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے لیے مزید کیمپ تعمیر کریں گے۔ ا س طرح کیمپوں کی تعداد 10 ہو جائے گی ۔
ترکی اور شام کی سرحد پر Cilvegozu کی کراسنگ پر ٹرکوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔
اس سرحد پر سڑک کے ذریعے تجارتی ٹریفک تیزی سے کم ہو رہا تھا۔ اب ترکی نے سرحد کو تجارت کے لیے بند کر دیا ہے ۔ اس طرح یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ بند ہو گیا ہے ۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اسے یہ اقدام سیکورٹی کی خاطر لینا پڑا ہے ۔ گذشتہ ہفتے، ترک ڈرائیوروں نے بتایا کہ جب اس کراسنگ کے پار شام کا علاقہ ، باغیوں نے سرکاری فورسز سے چھین لیا، تو ان کے ٹرک لوٹ لیے گئے اور انہیں آگ لگا دی گئی ۔
تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس راستے کے بند ہونے سے، شام کی معیشت پر بُر ا اثر پڑے گا کیوں سرحد پر ہونے والی تجارت ختم ہو جائے گی۔
اونکیوپینار کے نزدیک کیلیس پناہ گزیں کیمپ میں، پناہ گزیں ابو حسن نے ترکی کی پالیسی کا خیر مقدم کیا۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ بہت مناسب ہے ۔ ترکی نے یہ فیصلہ اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے، اور ہماری حفاظت کے لیے کیا ہے ۔
ترکی نے کہا ہے کہ وہ اب بھی پناہ گزینوں کو سرحد سے اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دے گا ۔
حالیہ دنوں میں، پناہ گزینوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ شام کا شہر، حلب، جہاں باغیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان لڑائی کئی دنوں سے جاری ہے، سرحد سے 60 کلومیٹر دور ہے ۔
ترکی کے نائب وزیرِ اعظم باسر اطالے کہتے ہیں کہ اب ترکی میں 44,000 سے زیادہ پناہ گزیں آ چکے ہیں۔’’توقع ہے کہ مزید لوگ پناہ کی تلاش میں آئیں گے ۔ لہٰذا ہم نے کئی اور مقامات پر جن میں کاہرامانمارس، عثمانیہ اور نیزپ شامل ہیں، نئے کیمپ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔‘‘
عرب لیگ نے شامی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے 10 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلکک انل کہتے ہیں کہ ترکی مشینوں اور آلات کی شکل میں امداد کا خیر مقدم کرے گا لیکن اسے عملے کی ضرورت نہیں۔ ’’کچھ امدادی سامان پہنچ گیا ہے، اور ہم بعض دوسری چیزیں جن کا ہم نے اعلان کیا ہے، وصول کرنے کو تیار ہیں ۔ پناہ گزینوں کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں اور یہ پالیسی جاری رہے گی۔‘‘
کیلیس کیمپ میں 11,000 سے زیادہ شامی رہ رہے ہیں اور اس کا شمار ایسے کیمپوں میں ہوتا ہے جو ہر طرح کے سازو سامان سے لیس ہے ۔ پھر بھی، بعض پناہ گزینوں کو شکایت ہے کہ یہاں جگہ بہت تنگ ہے، اور کیمپ کے اندر کا فرش ٹوٹ پھوٹ رہا ہے ۔
اس دوران، ہزاروں عراقی جو شام میں رہ رہے تھے، اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تشدد کی وجہ سے عراق کو چھوڑا تھا ۔ اب اسی وجہ سے لوگ شام کو چھوڑ رہے ہیں۔
ترکی اور شام کی سرحد پر Cilvegozu کی کراسنگ پر ٹرکوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔
اس سرحد پر سڑک کے ذریعے تجارتی ٹریفک تیزی سے کم ہو رہا تھا۔ اب ترکی نے سرحد کو تجارت کے لیے بند کر دیا ہے ۔ اس طرح یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک اہم تجارتی راستہ بند ہو گیا ہے ۔
ترکی کا کہنا ہے کہ اسے یہ اقدام سیکورٹی کی خاطر لینا پڑا ہے ۔ گذشتہ ہفتے، ترک ڈرائیوروں نے بتایا کہ جب اس کراسنگ کے پار شام کا علاقہ ، باغیوں نے سرکاری فورسز سے چھین لیا، تو ان کے ٹرک لوٹ لیے گئے اور انہیں آگ لگا دی گئی ۔
تجزیہ کار کہتےہیں کہ اس راستے کے بند ہونے سے، شام کی معیشت پر بُر ا اثر پڑے گا کیوں سرحد پر ہونے والی تجارت ختم ہو جائے گی۔
اونکیوپینار کے نزدیک کیلیس پناہ گزیں کیمپ میں، پناہ گزیں ابو حسن نے ترکی کی پالیسی کا خیر مقدم کیا۔
وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ بہت مناسب ہے ۔ ترکی نے یہ فیصلہ اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے، اور ہماری حفاظت کے لیے کیا ہے ۔
ترکی نے کہا ہے کہ وہ اب بھی پناہ گزینوں کو سرحد سے اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت دے گا ۔
حالیہ دنوں میں، پناہ گزینوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا ہے ۔ شام کا شہر، حلب، جہاں باغیوں اور سرکاری فوجوں کے درمیان لڑائی کئی دنوں سے جاری ہے، سرحد سے 60 کلومیٹر دور ہے ۔
ترکی کے نائب وزیرِ اعظم باسر اطالے کہتے ہیں کہ اب ترکی میں 44,000 سے زیادہ پناہ گزیں آ چکے ہیں۔’’توقع ہے کہ مزید لوگ پناہ کی تلاش میں آئیں گے ۔ لہٰذا ہم نے کئی اور مقامات پر جن میں کاہرامانمارس، عثمانیہ اور نیزپ شامل ہیں، نئے کیمپ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔‘‘
عرب لیگ نے شامی پناہ گزینوں کی امداد کے لیے 10 کروڑ ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ترجمان سیلکک انل کہتے ہیں کہ ترکی مشینوں اور آلات کی شکل میں امداد کا خیر مقدم کرے گا لیکن اسے عملے کی ضرورت نہیں۔ ’’کچھ امدادی سامان پہنچ گیا ہے، اور ہم بعض دوسری چیزیں جن کا ہم نے اعلان کیا ہے، وصول کرنے کو تیار ہیں ۔ پناہ گزینوں کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں اور یہ پالیسی جاری رہے گی۔‘‘
کیلیس کیمپ میں 11,000 سے زیادہ شامی رہ رہے ہیں اور اس کا شمار ایسے کیمپوں میں ہوتا ہے جو ہر طرح کے سازو سامان سے لیس ہے ۔ پھر بھی، بعض پناہ گزینوں کو شکایت ہے کہ یہاں جگہ بہت تنگ ہے، اور کیمپ کے اندر کا فرش ٹوٹ پھوٹ رہا ہے ۔
اس دوران، ہزاروں عراقی جو شام میں رہ رہے تھے، اپنے ملک کو واپس چلے گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تشدد کی وجہ سے عراق کو چھوڑا تھا ۔ اب اسی وجہ سے لوگ شام کو چھوڑ رہے ہیں۔