رسائی کے لنکس

ایران اورعالمی طاقتیں مذاکرات بحال کریں: ترکی


ایران اورعالمی طاقتیں مذاکرات بحال کریں: ترکی
ایران اورعالمی طاقتیں مذاکرات بحال کریں: ترکی

ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین – امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس- اور جرمنی کے مابین ایران کے جوہری پروگرام پہ ہونے والے مذاکرات گزشتہ ایک برس سے تعطل کا شکار ہیں

ترکی نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ تہران کے متنازع جوہری پروگرام پرتعطل کا شکار مذاکرات کا دوبارہ آغاز کریں۔

انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے دوبارہ آغاز سے خطے میں موجود کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی جس میں رواں ماہ کے دوران میں شدت آگئی ہے۔

یاد رہے کہ ایران اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین – امریکہ، برطانیہ، چین، روس اور فرانس- اور جرمنی کے مابین ایران کے جوہری پروگرام پہ ہونے والے مذاکرات گزشتہ ایک برس سے تعطل کا شکار ہیں۔

جمعرات کو انقرہ میں اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترکی کے وزیرِ خارجہ احمد اوغلو نے بات چیت کی میزبانی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین مذاکرات کی بحالی کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں۔

ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے چھ ممالک پر زور دیا کہ وہ بغیر کسی "بہانے بازی" کے مذاکرات کی میز پر واپس آجائیں۔

یاد رہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے ایران کے خلاف عائد اقتصادی پابندیاں سخت کرنے کے اقدامات کے بعد ایران اور مغربی ممالک کے مابین کشیدگی میں حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران میں شدت آگئی ہے ۔

پابندیوں کا مقصد ایران کو اپنا متنازع جوہری پروگرام ترک کرنے پہ آمادہ کرنا ہے جس کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شبہ ہے کہ ایران اسے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

الزامات کے برعکس ایران کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لیے ہے۔

تہران نے مغربی ممالک کی پابندیوں کے جواب میں آبنائے ہرمز نامی بحری گزرگاہ بند کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے جس پر تیل کی بیشتر عالمی تجارت کا دارومدارہے۔ واشنگٹن انتظامیہ پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ ایران کی جانب سے ایسا کوئی بھی قدم برداشت نہیں کیا جائے گا۔

دریں اثنا امریکی افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی جمعرات کو اسرائیل کا دورہ کررہے ہیں جس کے دوران میں وہ اسرائیلی حکام کے ساتھ ایرانی جوہری پروگرام پر دونوں ممالک کے خدشات سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

اسرائیل کا موقف رہا ہے کہ جوہری قوت کا حامل ایران اس کے وجود کے لیے خطرہ ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور اس کا دیرینہ اتحادی امریکہ ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنے کے لیے فوجی حملے کا امکان بھی رد نہیں کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG