ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہفتے کے روز ایک اہم ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے دو زوردار دھماکوں میں مرنے والوں کی تعداد 86 جب کہ زخمیوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہوگئی ہے۔ یہ دھماکے کُردوں کی حامی امن ریلی سے کچھ ہی لمحے قبل ہوئے۔
اس ریلی کا اہتمام محنت کشوں اور متمدن معاشرے کے گروپوں کی جانب سے کیا گیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ ترکی کی تاریخ کے ’مہلک ترین‘ دھماکے تھے۔
پولیس کے مابق، یہ دھماکے انقرہ کے الوس ضلعے میں ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلنے والے راستے پر ہوئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
جائے حادثہ پر افراتفری اور خوف کا عالم تھا، جہاں ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کارکن متاثرین کی امداد کے لیے تگ و دو کرتے رہے، جب کہ صورت حال پر قابو پانے کے لیے پولیس متحرک ہوگئی۔
لاشیں زمین پر پڑی تھیں اور ’ایچ ڈی پی‘ کے زرد رنگ کے پرچم اور کپڑے بھرے پڑے تھے۔
تجزیہ کاروں کو شبہ ہے کہ یہ یا تو داعش کے شدت پسند گروہ یا پھر ممنوعہ کُردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے مخالف ترک قوم پرستوں کی کارستانی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے، اِنہیں ’ہمارے ملک کے امن اور اتحاد کے خلاف سنگین حملہ‘ قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ترکی کو لاحق اس سکیورٹی کے چیلنج پر دھیان مرکوز کرنے کے لیے، اُنھوں نے اگلے تین دِن کی مصروفیات منسوخ کردی گئی ہیں۔
ترک میڈیا کے مطابق دھماکے ایسے وقت ہوئے جب لوگ امن مارچ کے لیے جمع ہو رہے تھے۔
خبر رساں ادارے، ’رائیٹرز‘ کے مطابق اُس کے ایک رپورٹر نے کم از کم 15 لاشیں اور سڑک پر جسمانی اعضاء بکھرے دیکھے۔
ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے’اناطولیا‘ کے مطابق دھماکا خودکش بمبار کی کارروائی تھا۔ لیکن حکام کی طرف سے فوری طور پر دھماکے کی نوعیت کی تصدیق نہیں کی گئی اور کہا گیا کہ یہ اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
اس سے قبل ذرائع ابلاغ میں کہا گیا تھا کہ دو دھماکے ہوئے۔
یہ واقعہ ایسے پیش آیا ہے جب سکیورٹی فورسز اور کرد جنگجوؤں کے درمیان لڑائی کے تناظر میں ایک ’’امن‘‘ مارچ میں شرکت کے لیے لوگ جمع ہو رہے تھے۔
ترکی کی حکومت نے اسے ایک ’دہشت گرد‘ حملہ قرار دیا۔ اُدھر وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کی جس میں صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔