ترک صدر رجب طیب اردگان نے ترکی کی جانب سے روسی لڑاکا طیارہ مار گرائے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے پر اُن کا ملک ’صاف طور پر افسردہ‘ ہے اور کہا، کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔
صوبہٴ بالیکیسر میں ہفتے کو اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے، اردگان نے کہا کہ اُنھیں توقع ہے کہ اس واقعے پر ترکی اور روس کے درمیان تناؤ مزید نہ بڑھے یا اس کے خراب نتائج برآمد ہوں۔ اُنھوں نےاس امید کا بھی اظہار کیا کہ ایسا کوئی واقع پھر کبھی نہ پیش آئے۔
اردگان نےپیر کو پیرس میں شروع ہونے والے عالمی موسمیاتی سربراہ اجلاس کے احاطے کے باہر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بالمشافیٰ ملاقات کا ایک بار پھر اعادہ کیا۔
پیوٹن، جنھوں نے روس کا لڑاکا جیٹ طیارہ گرائے جانے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے، ابھی مذاکرات کی پیش کش سے اتفاق نہیں کیا۔
ہفتے ہی کے روز، ترکی نے اپنے شہریوں کو مشورہ دیا کہ وہ روس کے غیر ضروری سفر سے اجتناب کریں۔ ترکی کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ اُس کی جانب سے سفری انتباہ اِس لیے جاری کیا گیا، کیونکہ ترک سیاحوں اور روس کے مکینوں کو بیان نہ کردہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ترکی نے کہا کہ لڑاکا جہاز کی شوٹنگ سے قبل اُس کی جانب سے بارہا انتباہ کیا گیا تھا کہ وہ ہماری فضائی حدود میں ہے۔ روس نے، جو ستمبر سے شام میں فضائی حملے کر رہا ہے، کہا ہے کہ جہاز ترکی کی حدود کے اندر نہیں تھا۔
لڑاکا طیارہ ایک پہاڑی علاقے پر گرا جو شام میں باغیوں کے زیر تسلط علاقہ ہے۔ دونوں پائلٹ پیراشوٹ کے ذریعے جلتے ہوئے طیارے سے باہر نکلے تھے۔ تاہم، ایک شام میں مرا ہوا پایا گیا، جب کہ دوسرا بحفاظت نیچے اتر گیا۔ بچاؤ اور تلاش کے کام کے دوران، ایک اور روسی فوجی ہلاک ہوا۔
پیوٹن نے کہا ہے کہ روسی طیارے کا مار گرایا جانا بے وفائی کے مترادف ہے، اور اُس ملک کی جانب سے ہوا جسے روس دوست خیال کرتا تھا۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ کو جیٹ طیارے کے راستے کا قبل از وقت علم تھا، اور اُسی نے ترکی کو اطلاع دی ہوگی، جو اُس کا نیٹو ساتھی ہے۔