رسائی کے لنکس

ٹی ٹی پی سے مذاکرات میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا: تیمور جھگڑا


’’افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے سے متعلق ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس سے دہشت گردوں کی نقل و حمل نہیں ہوسکے گی تو اب اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد یہ باڑ کیوں کام نہیں کررہی۔‘‘
’’افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے سے متعلق ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس سے دہشت گردوں کی نقل و حمل نہیں ہوسکے گی تو اب اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد یہ باڑ کیوں کام نہیں کررہی۔‘‘

خیبر پختونخوا حکومت کے سابق وزیر خزانہ تیمور جھگڑا کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں صوبائی حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

اسلام آباد میں پی ٹی آئی کی مرکزی رہنما شیریں مزارای کے ہمراہ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وفاق کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے خیبر پختونخوا حکومت سے باضابطہ یا غیر رسمی طور پر کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔

اہم سابق صوبائی وزیر کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب ٹی ٹی پی کے ساتھ حکومت کی فائر بندی کے معاہدے کے خاتمے کے بعد خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

اس سوال پر کہ صوبائی حکومت کے اس وقت کے ترجمان بیرسٹر سیف کس حیثیت سے ان مذاکرات میں شریک رہے، کے جواب میں تیمور جھگڑا نے کہا کہ وہ اسٹیبلیشمنٹ کے قریب ہیں اور ان ہی کی نمائندگی کررہے ہوں گے۔


یاد رہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف بھی شریک رہے ہیں تاہم وہ خود بھی کہہ چکے ہیں کہ صوبائی حکومت کا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شدت پسند جماعت کے ساتھ مذاکرات کے لیے پاکستان سے ایک قبائلی جرگہ کابل گیا تھا جب کہ اس وقت کے کور کمانڈر پشاور جنرل فیض حمید کے ٹی ٹی پی کے ساتھ افغانستان میں براہ راست مذاکرات کی بھی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں۔

تاہم حکومت یا ٹی ٹی پی کے درمیان قیامِ امن کے لیے ہونے والے طویل مذاکرات کسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے اور کالعدم جماعت نے فائر بندی ختم کرتے ہوئے اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کا دوبارہ آغاز کردیا ہے۔

ٹی ٹی پی سے مذاکرات جنرل باجوہ کا منصوبہ تھا!

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکزی نائب صدر اور سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا معاملہ وفاقی کابینہ میں زیر بحث آیا تھا اور شدت پسند گروہ کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ ان کے دور حکومت میں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بطور کابینہ رکن ان کے علم میں ہے کہ اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اس منصوبے کو لے کر آئے تھے کہ جو دہشت گرد ہتھیار ڈال کر واپس آنا چاہتے ہیں انہیں معاف کیا جانا چاہئے۔ ان کے مطابق جنرل باجوہ نے حکومت کو بتایا کہ افغان طالبان نے بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات میں تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

شیریں مزاری کہتی ہیں کہ فوج کی جانب سے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے اس منصوبے کی وفاقی حکومت نے اصولی منظوری دی، تاہم فوجی قیادت سے کہا کہ وہ منتخب مقامی سیاسی رہنماؤں اور صوبائی حکومت کو اس عمل میں اعتماد میں لے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس ضمن میں قبائلی اضلاع سے منتخب وفاقی وزراء مراد سعید، نور الحق قادری اور دیگر اراکین اسمبلی نے فوجی قیادت کے سامنے اپنے تحفطات بھی رکھے۔


ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد چوں کہ پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا لہذا نہیں معلوم کہ کالعدم گروه سے بات چیت کا عمل کیسے آگے بڑھا تاہم وہ کہتی ہیں کہ اس عمل میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت اور سابق قبائلی اضلاع کے اراکین اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

افغانستان میں گزشتہ سال اگست میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ان حملوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ اگرچہ شدت پسند گروہ کے ساتھ ماضی میں بھی مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن یہ شاید پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں امن کے قیام کے لیے افغان طالبان نےمذاکرات میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔

ان مذاکرات کے آغاز سے قبل پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی کے ارکان ہتھیار ڈال دیں اور گروپ اپنا نظریہ ترک کر کے ملک کے آئین کی پاسداری کرے تو حکومت ان کے لیے عام معافی کا اعلان کر سکتی ہے۔

افغان باڑ دہشت گردوں کی نقل و حمل کیوں نہیں روک پا رہی؟

تاہم حکومت کے ساتھ کالعدم گروہ کے ہونے والے مذاکرات ایک سال سے زائد عرصہ جاری رہنے کے باوجود ناکام ہوگئے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے گزشتہ سال نومبر میں جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔

جنگ بندی کے خاتمے کے بعد نومبر میں شدت پسند گروہ کی جانب سے خیبر پختونخوا میں 60 سے زیادہ حملے کیے گئے، جن میں 70 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر پولیس اور سیکیورٹی اہلکار تھے۔

وفاقی حکومت صوبے میں شدت پسندی کی بڑھتی کارروائیوں کو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی پالیسوں کا نتیجہ قرار دیتی ہے، تاہم خیبر پختونخوا کے سابق وزیر خزانہ تیمور جھگڑا ان الزامات کو رد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں اور بلدیاتی نظام کے ذریعے صوبے کی عوام میں احساس ذمہ داری کو بڑھایا۔

ٹی ٹی پی کو افغان طالبان سے مدد مل رہی ہے، امریکی ماہر
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:11 0:00


تیمور جھگڑا نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سابق قبائلی اضلاع کے حوالے سے اعلان کردہ ترقیاتی فنڈز مہیا نہیں کیے جس کی باعث وہاں شدت پسندی کے رجحان کو بڑھاوا ملا۔

انہوں نے کہا کہ سوات میں شدت پسندی کے خلاف عوام کا شدید ردعمل اس وجہ سے بھی تھا کہ وہاں صوبائی حکومت ترقیاتی منصوبے لائی اور اس شہر کو سیاحت کا مرکز بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی وفاق کے زیر انتظام آتا ہے لیکن وفاقی حکومت حالیہ عرصے میں اس ضمن میں صرف سیاسی بیانات ہی دے رہی ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ پی ٹی آئی نے قبائلی اضلاع کے انضمام کے ذریعے خیبر پختونخوا کے سیکیورٹی صوبے کی حیثیت کو تبدیل کیا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں انٹیلی جنس کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے سے متعلق ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس سے دہشت گردوں کی نقل و حمل نہیں ہوسکے گی تو اب اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد یہ باڑ کیوں کام نہیں کررہی۔

XS
SM
MD
LG