رسائی کے لنکس

امریکہ شمالی کوریا کو الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے، تجزیہ کار


صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے راہنما کم جانگ ان۔ فائل فوٹو
صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے راہنما کم جانگ ان۔ فائل فوٹو

اٹلانٹک کونسل کے ایک سینیر فیلو رابرٹ میننگ کہتے ہیں کہ امریکی میڈیا کلچر میں کم جانگ ان کو اکثر أوقات ایک قسم کے کارٹون کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور مسٹر ٹرمپ کی جانب سے اس قسم کا مودبانہ رویہ غالباً شمالی کوریا کے نظام کے لیے حیران کن ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ متنازعہ علاقائی راہنماؤں سے ملاقات کے دعوت ناموں کادفا ع کر رہی ہے جس میں فلپائن کےصدر روڈریگو ڈویوریٹ اور تھائی وزیر اعظم پرایوتھ چان اوچاکے لیےوہائٹ ہاؤس کے دورے کے دعوت نامے شامل ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب ایشیا میں واشنگٹن کی سفارت کاری چین پر اور شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگیوں پر مرکوز ہے تجزیہ کارجنوب مشرقی ایشیا کے راہنماؤں کے لیے صدر ٹرمپ کے دعوت ناموں کو مختلف پہلوؤں سے دیکھ رہے ہیں۔

پیر کے روز وہائٹ ہاؤس نے صدر ٹرمپ کے اقدامات کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ شمالی کوریا کے جوہری عزئم کے خلاف اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے علاقائی راہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات اہمیت رکھتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری شان سپائسر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ ہمارے لیے اس خطے کے ملکوں کے ساتھ کام کرنے کا ایک موقع ہے جو شمالی کوریا کو سفارتی طور پر اور اقتصادی طور پر الگ تھلگ کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے ۔ اور سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کے قومی مفادات ، ہمارے عوام کی سلامتی اور خطے کے لوگوں کی سلامتی صدر کی اولین ترجیحات ہیں۔

انسانی حقوق کے گروپس تھائی وزیر اعظم پرایوتھ چان اوچا پر ایک فوجی انقلاب کے ذریعے اقتدار پر قابض ہونے اور جمہوری حقوق پامال کرنے کی بناء پر تنقید کر چکے ہیں۔ جب کہ فلپائن کے صدر کی منشیات کے خلاف ان کی مہلک جنگ کی بناء پر مذمت کی گئی ہے۔

اور ابھی بالکل حال ہی میں صدر ٹرمپ شمالی کوریا کو ایک ایسا خطرہ قرار دے چکے ہیں جسے وہ چین کی مدد سے ختم کرنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ اس لئے جب ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر کو مشکل حالات سے بہترین طریقے سے نمٹنے والی ایک شخصیت قرار دیا تو کم جانگ ان لازمی طور پر خوش ہوئے ہوں گے۔

اٹلانٹک کونسل کے ایک سینیر فیلو رابرٹ میننگ کہتے ہیں کہ امریکی میڈیا کلچر میں کم جانگ ان کو اکثر أوقات ایک قسم کے کارٹون کردار کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور مسٹر ٹرمپ کی جانب سے اس قسم کا مودبانہ رویہ غالباً شمالی کوریا کے نظام کے لیے حیران کن ہے۔ مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہو گی کہ وہ اس رویے کو کس طرح لے رہے ہیں کیوں کہ کسی صدر کی جانب سے شمالی کوریا یا ان کے لیڈر کے بارے میں اگر کبھی کوئی مثبت الفاظ کہے گئے ہیں تو بھی انہوں نے ایک بہت ہی، بہت ہی زیادہ طویل عرصے سے کسی صدر کے منہ سے ایسی باتیں نہیں سنیں۔

رابرٹ میننگ نے اسکائپ پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلپائن کے صدر ڈویوریٹ خطے میں ایک اہم کردار رکھتے ہیں اور ان سے تعلقات بہتر بنانا امریکہ کے مفاد میں ہے اگرچہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ڈیوریٹ امریکہ کو بنیادی طور پر پسند نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ اس کا کچھ تعلق اس ماضی سے ہے جب ہم وہاں ایک نو آبادیاتی طاقت تھے ۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ فلپائن کے لیڈر شمالی کوریا پر قابو پانے میں کسی قسم سے کوئی مدد نہیں کرپائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کا مسئلہ چار صدور کے لیے ایک مشکل مسئلہ رہا ہے ۔ ہمارے پاس کوئی مناسب متبادل موجود نہیں ہیں اور مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا جب تک یہ حکومت پیانگ یانگ پر اقتدار میں ہے ، کوئی حل ممکن ہے یا نہیں۔

رابرٹ میننگ کہتے ہیں کہ مشرقی ایشیا اور پیسیفک کے خطے میں صدر ٹرمپ کی طویل المیعاد پالیسی واضح نہیں ہے اور یہ کہ اس کے کچھ متنازع راہنماؤں کے لئے دوستانہ آغاز کی ان کی کوششیں ممکن ہے ان علاقائی سربراہی کانفرنسوں کے ایک سلسلے کی تیاری ہوں جن میں وہ پروگرام کے مطابق شرکت کریں گے۔

XS
SM
MD
LG