رسائی کے لنکس

ٹرمپ کی پاک بھارت معاملات بہتر کرنے میں 'مدد' کی پیش کش


ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ دونوں ملک جانتے ہیں کہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے ثالثی پیش کش موجود ہے۔ (فائل فوٹو)
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ دونوں ملک جانتے ہیں کہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے ثالثی پیش کش موجود ہے۔ (فائل فوٹو)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے مقابلے میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کشمیر پر شدت میں کمی آئی ہے۔ تاہم وہ دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان معاملات کو بہتر کرنے کے لیے 'مدد' کرنے کو تیار ہیں۔

پیر کو وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ملکوں کے ساتھ اُن کے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو وہ ان کی مدد کرنے پر تیار ہیں اور دونوں ملک جانتے ہیں کہ یہ پیش کش موجود ہے۔

صدر ٹرمپ اس سے قبل پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے تنازع پر ثالثی کی پیش کش کرچکے ہیں۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے پہلی بار کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیش اُس وقت کی تھی جب رواں سال جولائی میں پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے دورہ واشنگٹن کے دوران صدر ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔

بھارت کی طرف سے صدر ٹرمپ کے تازہ بیان پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم بھارت جموں و کشمیر کو اندرونی معاملہ قرار دیتے ہوئے کسی بھی تیسرے فریق کی مداخلت قبول کرنے پر تیار نہیں ہے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے کشمیر کے معاملے پر تازہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بین الاقوامی برداری اپنی تشویش کا اظہار کررہی ہے۔

پاکستان کے سابق سیکرٹر ی خارجہ شمشاد احمد خان نے اس تناظر میں کشمیر کے معاملے پر صدر ٹرمپ کے بیان کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

منگل کو وائس امریکہ سے بات کرتے ہوئے شمشاد احمد کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کی پاک بھارت کشیدگی پر تشویش بالکل بجا ہے اور اسی لیے وہ بار بار کہہ رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے پر تیار ہیں۔

انہون نے کہا کہ ان کی پیش کش سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ملک ایسا ماحول پیدا کریں کہ بات چیت کے لیے راستہ کھل سکے۔

تاہم پاکستان کے سابق سفارت کار کے بقول یہ ماحول اس وقت ہی بن سکتا ہے جب بھارت کے وزیرا عظم نریندر مودی بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں کی زندگی کو آسان کریں۔

اُن کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر دنوں ملکوں کے درمیان معاملات کو بہتر کرنے کے دوسرے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔

قومی سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ پاک بھارت تعلقات بہتر ہوں اور ان کی باہمی کشیدگی کم ہو۔

اُن کے بقول پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ نا تو امریکہ کے مفاد میں ہے اور نا ہی افغانستان کی صورت حال کے لیے یہ مفید ہے۔

طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ امریکہ کے صدر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کو بہتر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کے دورہ پاکستان کے بعد دونوں ملکوں کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں جموں و کشمیر کا معاملہ اٹھانے کے اقدام کو مسترد کیا ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ نے جمو ں و کشمیر کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ یادر رہے کہ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کے حالیہ دوہ پاکستان کے بعد جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں چین نے کہا تھا کہ بیجنگ جموں و کشمیر کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور چین کے نزدیگ کشمیر کا معاملہ تاریخی طور پر حل طلب تنازع ہے۔

چینی وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ جموں و کشمیر تنازع کا حل اقوام متحدہ کے چارٹر، سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کی روشنی میں نکالا جانا چاہیے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ چین پاکستان راہداری منصوبے پر تشویش ہے۔ نئی دہلی کے بقول یہ منصوبہ مبینہ طور پر بھارتی علاقے سے گزرتا ہے اور بھارت اس متنازع علاقے کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اقدام کا مخالف ہے۔ تاہم پاکستان بھارت کے ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔

XS
SM
MD
LG