امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اتوار کے روز اس امکان کا عندیہ دیا کہ شمالی کوریا پر چین سے تعاون کے حصول کے لیے تجارت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؛ اور یہ کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکہ شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار اور میزائل پروگرام کے خلاف اپنے طور پر اقدام کر سکتا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات 'فائننشل ٹائمز' کے ساتھ انٹرویو میں کہی جو اتوار کے روز شائع ہوا ہے۔ بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ اس ہفتے فلوریڈا کے صحت افزا مقام، 'مار اے لاگو' میں ملاقات سے قبل، ٹرمپ چینی صدر شی جنپنگ پر دبائو بڑھا رہے ہیں۔
روزنامے کے ایڈٹ شدہ متن کے مطابق، ٹرمپ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ''چین کا شمالی کوریا پر کافی اثر و رسوخ ہے۔ اور چین کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف ہماری مدد پر تیار ہے، یا نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ چین کے لیے بہت ہی اچھا ہوگا، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ کسی کے لیے بھی اچھا نہیں ہوگا''۔
جب اُن سے معلوم کیا گیا کہ اِس کے بدلے امریکہ چین کو کیا پیش کش کرے گا، ٹرمپ نے جواب دیا: ''تجارت ہی پیش کش ہے۔ سارا معاملہ ہی تجارت کا ہے''۔
یہ معلوم کرنے پر آیا وہ کسی ''بڑی پیش کش'' کا سوچیں گے اگر چین شمالی کوریا پر زور بار ڈالتا ہے، کیا امریکہ کوریائی جزیرے سے اپنی فوجیں ہٹا لے گا، اخبار نے ٹرمپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ''اگر چین شمالی کوریا کا مسئلہ حل نہیں کرتا تو ہم کریں گے۔ بس میں آپ کو اتنا ہی بتا سکتا ہوں''۔
یہ بات واضح نہیں آیا ٹرمپ کا یہ بیان چین پر کوئی اثر کرے گا، جس نے شمالی کوریا کے خلاف اقتصادی اقدامات میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن، وہ ایسے کسی اقدام کے لیے تیار نہیں لگتا جس کے باعث شمالی کوریا میں عدم استحکام پیدا ہو، اور نتیجے میں لاکھوں مہاجرین اُس کی سرحد پار کرنے لگیں۔
یہ بات بھی واضح نہیں کہ شمالی کوریا کو جوہری صلاحیتوں کو وسعت دینے کے اُس کے عزائم سے روکنے کے ضمن میں امریکہ کیا اقدام کر سکتا ہے؛ اور اُس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو تشکیل دینے اور جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کو کیسے کنٹرول کر سکتا ہے۔