امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیشرو باراک اوباما پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 2016 کے انتخاب سے پہلے نیویارک کے ٹرمپ ٹاور میں واقع ان کے دفتر کی ٹیلیفون کالز کی خفیہ طور پر نگرانی کی ۔
ہفتے کو ٹویٹر پر کئی ٹویٹس کے ذریعے ٹرمپ نے مبینہ فون ریکارڈنگ کو واٹر گیٹ سکینڈل سے جوڑا جس کے نتیجے میں اس وقت کے صدر رچرڈ نکسن کو 1974 میں استعفی دینا پڑا تھا۔
ٹرمپ نے نگرانی کا کوئی ثبوت نہیں دیا جبکہ صدر اوباما کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ الزامات "سرا سر جھوٹے" ہیں۔
ٹویٹر پر ہی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے سابق تجزیہ کار اور کاونٹر انٹیلی جنس آفیسر جان شنڈلر نے کہا ہے کہ صدر کے الزامات شائد 1978 کے فارن انٹیلی جنس سرویلنس قانون سے متعلق ہوں جو خارجہ ممالک اور ان کے جاسوسوں کی خفیہ نگرانی اور معلومات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سینٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی میں ڈیمو کریٹس کے چوٹی کے رہنما بن کارڈن نے ہفتے کو سی این این پر کہا کہ اگر اوباما انتظامیہ نے ٹرمپ ٹاور میں ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی کی تو انہیں اس کے لیے FISA یعنی فارن انٹیلی جنس سرویلنس عدالت کی اجازت درکار ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ” انتظامیہ خود سے ایسا قدم نہیں اٹھا سکتی، انہیں ایسا کچھ کرنے سے پہلے عدالت سے اجازت لینی ہوتی ہے۔”
رواں ہفتے کے آغاز میں یہ اطلاع منظرِ عام پر آئی کہ روسی سفیر سر گئی کسل یاک اور ٹرمپ کے داماد جیرڈ کُشنر کے درمیان دسمبر میں نیویارک کے ٹرمپ ٹاور میں ملاقات ہوئی اس ملاقات میں مستعفی ہونے والے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مائکل فلین بھی موجود تھے۔ فلین کو صرف چوبیس دن بعد ہی ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
ٹرمپ ٹاور میں ہونے والی ان ملاقاتوں کی معلومات اس وقت عام ہوئیں جب اٹارنی جنرل جیف سیشنز نے رواں ہفتے ہی یہ اقرار کیا کہ گزشتہ سال صدارتی مہم کے دوران ان کی روسی سفیر کسل یاک کے ساتھ دو ملاقاتیں ہوئیں اور انہوں نے سینٹ میں نامزدگی کی سنوائی کے دوران یہ معلومات نہیں دیں۔ اس کے بعد اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ وہ 2016 کے صدارتی انتخاب میں مبینہ روسی مداخلت کے بارے میں وفاق کی تحقیقات سے علہدہ رہیں گے۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان ہوپ ہکس نے جمعرات کو کہا تھا کہ ٹرمپ ٹاور میں کی جانے والی ملاقاتوں کا مقصد مستقبل کی انتظامیہ اور روسی سفیر کے درمیان رابطہ قائم کرنا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشنر دو درجن سے زائد دیگر ملکوں کے نمائندوں سے بھی ملےتھے۔
امریکہ انتظامیہ کے اہلکار خارجہ ملکوں کے نمائندوں سے بہت مواقوں پر بہت سی وجوہات کی بنا پر ملتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے کئی مہینے تک اس سے انکار کیا کہ صدر کی مہم اور روسی اہلکاروں کے درمیان کوئی رابطہ تھا۔
جمعے کو بریٹ بارٹ نیوز ویب سائٹ نے ایک رپورٹ شائع کی جو قدآمت پسند ریڈیو میزبان مارک لیون کے الزام پر مبنی تھی کے صدر اوباما نے منتخب صدر ٹرمپ کے خلاف پولیس کو استعمال کر کے ایک “خاموش بغاوت “ کی ۔ ٹرمپ انتظامیہ میں وائٹ ہاوس کے ٹاپ ایڈوائزر سٹیفن بینن یہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے بریٹ بارٹ کے ایگزیکٹو چیرمین تھے۔
یہ دعوے ایسے وقت کیے جارہے ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ پر ایف بی آئی اور کانگرس کی طرف سے یہ جاننے کے لیے کئی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ ان کی صدارتی مہم کی ٹیم اور روسی انتظامیہ کے اہلکاروں کے درمیان روابط تھے۔
سینٹر کارڈن جنہیں اوباما انتظامیہ نے جاتے ہوئے ایسی خفیہ معلومات فراہم کی تھیں کہ گزشتہ سال کے صدارتی انتخاب میں روس نے مداخلت کی، انہوں مطالبہ کیا ہے کہ اٹارنی جنرل جیف سیشنز اور روسی سفیر کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کی آزاد تحقیقات کروائی جائیں۔