امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جمعے کے روز بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ’’بہت سی باتوں پر‘‘ گفتگو ہوئی ہے، اور اُنھیں مستقبل میں ایسی پیش رفت کی توقع ہے جو دونوں ملکوں کے لیے سودمند ثابت ہوگی۔
پوٹن کے ساتھ اپنی پہلی بالمشافیٰ ملاقات سے قبل، ٹرمپ نے کہا کہ ’’میں روس اور امریکہ میں ہونے والی بہت سی مثبت باتوں کا منتظر ہوں۔ یہ اُن کی پہلی باضابطہ گفتگو تھی، جسے جرمنی کے شہر ہیمبرگ کے اجلاس کی باقی کارروائی میں سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی، جس میں دنیا کے 20 بڑے ممالک کے سربراہان شرکت کر رہے ہیں۔
اس ملاقات کی ایک بڑی علامتی اہمیت ہے، چونکہ ٹرمپ ابھی عالمی سفارت کاری کے میدان میں نوآزمود ہیں، جو پوٹن کے روبرو تھے، جو ’کے جی بی‘ کے سابق ایجنٹ رہ چکے ہیں، جو 17 برس قبل کریملن میں ہونے والے انقلاب کے نتیجے میں سامنے آئے۔ پوٹن کو شہرہ حاصل ہے کہ اُن سے مذاکرات کے دوران مخالفین اپنا توازن کھو دیتے ہیں۔
مبصرین اس ملاقات کا قریب سے جائزہ لے رہے ہیں، اُن اشاروں کو سامنے رکھتے ہوئے آیا دونوں سربراہان نے ملاقات کے دوران کیا کچھ گفتگو کی ہوگی۔ پوٹن اور سابق صدر براک اوباما کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے، جب کہ ٹرمپ بارہا یہ کہ چکے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے خواہاں ہیں۔
امریکہ میں روس کے عزائم کے بارے میں شک و شبہات پائے جاتے ہیں، جس کا سبب اس وقت جاری تفتیش سے ہے آیا گذشتہ سال نومبر میں منعقدہ امریکی صدارتی انتخابات کے دوران روس نے مداخلت کی، جس میں ٹرمپ کی انتخابی مہم پر گٹھ جوڑ کا الزام ہے۔ ٹرمپ کے مشیروں کا کہنا ہے کہ صدر انتخابات میں مداخلت کے معاملے کو اٹھائیں گے، تاہم وہ اس پر زیادہ زور نہیں دیں گے۔
دونوں جانب کی سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے کہا ہے کہ انتخابی مداخلت کے معاملے میں پوٹن سے سخت مناظرے کی ضرورت ہے۔ ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی امور خارجہ کمیٹی کے ایک رُکن، ایڈم کنزنگر نے اس ہفتے کہا تھا کہ وہ اس معاملے کو زور شور سے اٹھائیں گے اگر ٹرمپ پوٹن کو یہ نہیں بتاتے کہ روس امریکی اور دیگر ملکوں کے انتخابات کے دوران مداخلت کے اپنے رویے سے باز نہیں آتا۔
جمعرات کو وارسا میں پولینڈ کے صدر آندرے دودا کے ہمراہ مشترکہ اخباری کانفرنس میں ٹرمپ نے روسی مداخلت کا معاملہ اٹھایا۔ ٹرمپ کے بقول، ’’میرے خیال میں یہ روس ہی تھا۔ لیکن، میں سمجھتا ہوں کہ شاید اس میں دیگر لوگ اور/یا ملک بھی ملوث تھے۔ کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔
اس معاملے پر ٹرمپ کا مؤقف امریکی انٹیلی جنس برادری کے نتائج سے مختلف ہے، جن کا کہنا ہے کہ روس نے انتخابات میں مداخلت کی اور اس بات کی شہادت خود اُن کے نامزد امیدواروں نے کانگریس کے روبرو دی۔
فروری میں اپنے نام کی توثیق کے سلسلے میں ہونے والی سماعت کے دوران، نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ، ڈین کوٹس نے کہا تھا کہ ’’یہ بات سب کو پتا ہے اور اسے عام تسلیم کیا جاتا ہے، اور یہ بات ماننے والی ہے کہ روس نے یقینی طور پر انتخابی مہم پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی‘‘۔
اس سے قبل موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ایسے میں جب دنیا کے 20 امیر ترین ملکوں کے سربراہان جمعے کو مذاکرات کا آغاز کرنے والے ہیں، ہیمبرگ میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان آج دوسرے روز بھی جھڑپیں جاری رہیں۔ اِن مذاکرات میں صدر ٹرمپ کی روسی راہنما ولادیمیر پوٹن کے ساتھ پہلی بالمشافیٰ ملاقات شامل ہے، جو اجلاس کے احاطے سے باہر منعقد ہوئی، جسے بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔
بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے جمعے کے روز طاقت کا استعمال کیا، جو انسانی زنجیر بنا کر کھڑے رہے، جس کا مقصد راہمناؤں کو سربراہ اجلاس کے مقام تک پہنچنے سے روکنا تھا۔ بلوے سے بچاؤ پر مامور پولیس فورس نے وہاں پہنچ کر تیز دھار پانی کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو منتشر کیا۔
بند کمرے والے اجلاس میں شرکت سے قبل، ٹرمپ اور پوٹن نے کچھ لمحے تصویر کشی کے لیے وقف کیے۔ دونوں سربراہان نے ہاتھ ملایا اور ایک دوسرے کی خیریت معلوم کی، لیکن اخباری نمائندوں کی جانب سے پوچھے گیے سوالات کے جواب دینے سے احتراز کیا۔
ٹرمپ کے جمعے کی شام کے ایجنڈا میں پوٹن سے ملاقات ایک اہم معاملہ تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ملاقات میں صدر ٹرمپ نے شام، یوکرین، شمالی کوریا اور ممکنہ طور پر امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات پر مبنی سوال اٹھائے۔
جمعے کے روز اپنے ٹوئیٹ میں، امریکی صدر نے کہا کہ ’’میں عالمی سربراہان کے ساتھ ملاقاتوں کا منتظر ہوں، جن میں ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات بھی شامل ہے۔ بہت کچھ زیر غور آئے گا‘‘۔
اس سے قبل، پولینڈ میں قیام کے دوران، ٹرمپ نے روس پر عدم استحکام کا رویہ روا رکھنے کا الزام لگایا۔
بقول اُن کے، ’’ہم روس سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ یوکرین اور دیگر مقامات پر عدم استحکام کی اپنی کوششیں بند کرے اور مخاصمانہ حکومتوں کی حمایت سے باز آئے، جن میں شام اور ایران شامل ہیں۔ برعکس اس کے، وہ ہمارے مشترکہ دشمنوں سے لڑائی میں اور تہذیبوں سے دفاع کے معاملے پر ذمہ دار اقوام کی برادری میں شمولیت اختیار کرے‘‘۔
روس اِن الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
امریکی سربراہ جمعے ہی کے روز میکسیکو اور برطانیہ کے سربراہان سے بھی ملاقات کریں گے۔
ٹرمپ موسیماتی تبدیلی پر ہونے والے مباحثے میں شرکت کریں گے، جو متعدد مظاہرین کا خاص موضوع بنا ہوا ہے، جنھوں نے سربراہ اجلاس کے پہلے روز ہیمبرگ کی سڑکوں پر احتجاج جاری رکھا۔