امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران کے خلاف ان پابندیوں کی نرمی میں توسیع کر دی ہے جن میں سن 2015 میں ایران کے پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر طے پانے والے سمجھوتے کے بعد نرمی کی گئی تھی۔
ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر عائد پابندیوں میں نرمی، تہران کے چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد کی گئی تھی۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ کی پابندیوں میں نرمی جاری رکھنے کے اعلان کا بظاہر مقصد ایران کو پیغام بھیجنا ہے کہ صدر ٹرمپ کےسخت موقف کے باوجود ایران کے لیے سابق صدر براک اوباما کی پالیسی جاری رکھی جا رہی ہے، جو تہران کی جانب سے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضامندی کے پیش نظر اختیار کی گئی تھی۔
صدر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران پر عائد پابندیاں نرم کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
اس سے قبل خبررساں ادارے روئیٹرز نے دو امریکی عہدے داروں کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جوہری معاہدے کے ایک حصے کے طور پر امریکہ کی جانب سےے ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی میں توسیع کا باضابطہ اعلان کرے گی۔
سابق صدر براک اوباما کی انتطامیہ نے ان کا عہدہ چھوڑنے سے محض چند دن پہلے اس سال جنوری کے وسط میں ایران کے خلاف امریکی پابندیوں میں نرمی میں توسیع کی منظوری دی تھی۔اگر صدر ٹرمپ نے توسیع کی تجدید نہ کی تو ان میں سے کچھ کی مدت اس ہفتے ختم ہو جائے گی۔
پابندیوں میں نرمی کی توسیع کا فیصلہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ٹرمپ انتظامیہ پہلی اہم پالیسی کو ظاہر کرتا ہے اور اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ صدارتی امیدوار کے طور پر سن 2016 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ منسوخ کرنے انتخابی وعدے کے باوجود صدر ٹرمپ نے فی الحال اسے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پابندیوں میں نرمی کی تجدید ایران کے صدارتی انتخابات سے محض چند روز پہلے کی گئی ہے۔ یہ انتخابات جمعے کے روز ہو رہے ہیں، جس میں اپنے عہدے پر موجود صدر حسن روحانی بھی حصہ لے رہے ہیں جنہوں نے ایرانی قدامت پسندوں کی مخالفت کے باوجود ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کو ایک معاہدے تک پہنچنے کی راہ ہموار کی۔