امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئندہ صدارتی انتخاب لڑنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیموکریٹس کے پاس ایسا کوئی امیدوار نہیں جو انہیں شکست دے سکے۔
صدر ٹرمپ ان دنوں برطانیہ کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے معروف برطانوی صحافی پیئرس مورگن کے ساتھ ایک انٹرویو میں اپنے مستقبل کے ارادوں کا اظہار کیا۔
برطانوی اخبار 'دی میل آن سنڈے' کے مطابق جمعے کو ریکارڈ کیے جانے والے انٹرویو میں میزبان نے صدر ٹرمپ سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لیں گے۔
اخبار کے مطابق اس پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کا انتخاب لڑنے کا ارادہ ہے کیوں کہ ان کے بقول "ہر کوئی چاہتا ہے کہ وہ آئندہ انتخاب میں بھی حصہ لیں۔"
صدر نے مزید کہا کہ وہ تمام ڈیموکریٹس سے واقف ہیں اور انہیں نہیں لگتا کہ ان میں سے کوئی انہیں شکست دے سکتا ہے۔
اپنے انٹرویو کے دوران صدر ٹرمپ نے برطانیہ کی شاہی روایات کےبر خلاف ملکہ الزبتھ سے ہونے والی اپنی نجی گفتگو پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا۔
میزبان کے اس سوال پر کہ ملکۂ برطانیہ کے ساتھ ہونے والی ان کی ملاقات میں کیا برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر بھی بات ہوئی، صدر ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے ملکہ سے اس پر بات کی تھی اور ملکہ کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کو ونڈسر محل میں ملکۂ برطانیہ سے ملاقات کی تھی۔ برطانیہ کی روایات کے مطابق ملکہ سیاسی معاملات پر سرِ عام گفتگو نہیں کرتیں البتہ وہ حکام کے ساتھ نجی ملاقاتوں میں مختلف سیاسی اور ملکی معاملات پر اپنا موقف پیش کرسکتی ہیں۔
لیکن اپنے انٹرویو میں ملکہ کے ساتھ ہونے والی اپنی نجی گفتگو کی تفصیل بتاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کاخیال ہے کہ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کتنی مشکل ثابت ہوگی۔
بانوے سالہ ملکہ الزبتھ کے بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ایک شاندار اور ذہین خاتون ہیں جن کا ظاہر اور باطن بہت خوب صورت ہے۔
میزبان کے اس سوال پر کہ کیا ٹرمپ کے خیال میں ملکہ کو بھی وہ پسند آئے، ان کا کہنا تھا کہ وہ ملکہ کے متعلق تو کچھ نہیں کہنا چاہتے لیکن انہیں ملکہ ضرور پسند آئی ہیں۔
برطانیہ کے اس دورے سے قبل صدر ٹرمپ نے برسلز میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی جب کہ برطانیہ کے دورے کے بعد وہ پیر کو فن لینڈ میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات کریں گے۔
صدر ٹرمپ کا یورپ کا یہ دورہ ان کے اتحادیوں کے لیے خاصا مشکل ثابت ہوا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے برسلز میں سرِ عام اتحاد کے رکن ملکوں پر امریکہ کو لوٹنے کا الزام لگاتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کریں کیوں کہ ان کے بقول "اب تک امریکہ ان کے دفاع پر اپنا مال خرچ کرتا آرہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔"
صدر ٹرمپ نے جرمنی اور روس کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون پر کڑی تنقید کرتے ہوئے جرمنی کو ماسکو کا "قیدی" قرار دیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے 'بریگزٹ' سے متعلق برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے کی حکمتِ عملی کو بھی سرِ عام تنقید کا نشانہ بنا کر داخلی انتشار کا شکار برطانوی حکومت کے لیے مزید مشکل کھڑی کردی تھی۔
تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے اس بیان پر ہونے والے شور شرابے کے بعد تھریسا مے سے معذرت کرتے ہوئے اس کا الزام 'فیک نیوز' کے سر دھر دیا تھا۔
اپنے اس دورے میں صد رٹرمپ نے برطانوی حکومت کو مارچ 2019ء میں برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد اس کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ کرنے کا بھی یقین دلایا ہے۔
برطانیہ کے اس دورے کے دوران صدر ٹرمپ کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے ہیں جن میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔