صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران ’’دنیا میں دہشت گردی پھیلانے والا سرکردہ سرپرست ہے‘‘؛ اور یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ 2015ء کا جوہری سمجھوتا درست نہیں تھا، جس سے امریکہ اس سال کے اوائل میں الگ ہوگیا تھا۔
بدھ کو جنرل اسمبلی کے احاطے سے باہر ایران، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیار اور جوہری عدم پھیلاؤ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد محض ’’ایران کی جارحیت کو شہ ملی‘‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ ’’ایسا ٹریک ریکارڈ رکھنے والی حکومت کو جوہری ہتھیار رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔ اُنھوں نے متنبہ کیا کہ امریکہ ایران کے خلاف تعزیرات کو مزید سخت کرے گا۔
سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے ایک روز قبل ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عالمی سربراہان سے مطالبہ کیا تھا کہ ’’جب تک جارحیت کا یہ انداز جاری رہتا ہے، ایران کی حکومت کو تنہا کیا جائے‘‘۔
ایران کے بارے میں ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ ’’وہ اپنے ہمسایوں یا اُن کی سرحدوں یا دیگر ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا۔ بلکہ، ایران کے راہنما اپنے وسائل کو لوٹ رہے ہیں تاکہ اپنے پیٹ بھر سکیں، اور مشرق وسطیٰ اور اس سے آگے سرکشی پر مبنی سرگرمیاں پھیلائی جا رہی ہیں‘‘۔
کیمیائی اور بایولوجیکل ہتھیاروں کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے، امریکی صدر نے کہا کہ ’’بربریت کی راہ پر گامزن، اسد حکومت نے شام میں اپنی ہی بے گناہ شہری آبادی کے خلاف بایولوجیکل ہتھیار استعمال کیے، جس کی پاداش میں امریکہ نے شام پر دو مرتبہ تعزیرات عائد کیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
مہاجرین کے مسئلے سے نبردآزما ہونے پر صدر ٹرمپ نے ترکی کو سراہا۔ اُنھوں نے کہا کہ حالیہ دِنوں کے دوران ایران، شام اور روس نے اپنے حملوں میں کمی کی ہے۔
ٹرمپ نے چین پر الزام لگایا کہ وہ 2018ء کے امریکی وسط مدتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کر رہا ہے، ’’چونکہ چین نہیں چاہتا کہ ٹرمپ انتخابات جیتیں‘‘۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر امانوئیل مکخواں نے کہا کہ ایران کے معاملے پر طویل مدتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جسے محض تعزیرات اور روک لگانے سے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
مکخواں نے مزید کہا کہ سارے ممالک اس مقصد میں متحد ہیں کہ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔
تھومس کنٹریمین بین الاقوامی سلامتی اور جوہری عدم پھیلاؤ کے امور کے سابق امریکی مملکتی وزیر رہے ہیں؛ اور اب ’آرمز کنٹرول ایسو سی ایشن‘ کے بورڈ کے رکن ہیں۔ اُن کے بقول، ’’سب سے اہم موضوع بحث یہ تھا کہ کونسل کے تقریباً تمام ارکان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ’جوائنٹ کمپریہنسو پروگرام آف ایکشن‘ کو محفوظ رکھا جائے، (خاص طور پر برطانیہ، فرانس، نیدرلینڈز اور سویڈن) حالانکہ امریکہ اس کا مخالف ہے، جس نے ایران کی جانب سے عدم استحکام پھیلانے کے بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا‘‘۔