امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر اپنے پیش رو کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ منگل کے روز ٹوئٹر پیغام پر اپنی تنقید میں اُنھوں نے سابق صدر براک اوباما پر الزام لگایا کہ اُنھوں نے گوانتانامو بے کے فوجی حراستی مرکز سے مبینہ ’’خطرناک قیدیوں‘‘ کو رہا کر دیا تھا، جنھوں نے پھر سے’’میدانِ جنگ کا رُخ کیا‘‘۔
اپنے الزام کے حوالے سے، ٹرمپ نے اپنا ماٴخذ بیان نہیں کیا۔ تاہم، یوں لگتا ہے کہ اُن کا حوالہ ’ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس‘ کے دفتر سے جاری کردہ شش ماہی رپورٹ تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ جولائی 2016ء میں رہا کیے گئے 122 سابقہ قیدی دہشت گردی کی جانب لوٹ آئے۔
لیکن، تصحیح کردہ رپورٹ، جسے بعدازاں منگل ہی کو جاری کیا گیا، پتا چلتا ہے کہ اوباما کے عہدہٴ صدارت کے دوران جِن 182 قیدیوں کو رہا کیا گیا، اُن میں سے صرف آٹھ، یعنی 4.4 فی صد نے دوبارہ دہشت گرد سرگرمیوں کا رُخ کیا۔ دیگر 13 قیدی، یا 7.1 فی صد، پر شبہ ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کے ساتھ جا ملے تھے۔
مجموعی طور پر، ادارے نے بتایا ہے کہ گوانتانامو بے تنصیب سے 714 قیدی رہا ہوئے، جن میں سے 121 قیدی پھر سے دہشت گردی کی راہ پر گامزن ہوئے، جو کہ 16.9 فی صد بنتا ہے؛ جب کہ مزید 87، یعنی 12.2 فی صد دہشت گرد کارروائیوں کی جانب لوٹ آئے۔
گوانتانامو بے سے رہا ہونے والے 714 قیدیوں میں سے 532 کو صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے رہا کیا تھا۔
ٹرمپ کے منگل کی صبح کے ایک ٹوئیٹ کے فوری بعد ’فوکس اینڈ فرینڈز‘ ٹیلی ویژن پروگرام میں یمن میں امریکی فضائی حملے کے بارے میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس میں گوانتانامو سے رہا ہونے والے ایک قیدی کو ہلاک کیا گیا۔ رپورٹ میں سابقہ قیدی کی ہلاکت کا سہرا ٹرمپ انتظامیہ کے سر باندھا گیا، اور بتایا گیا کہ اس سابقہ قیدی کو ’’براک اوباما کے دور میں رہا گیا گیا تھا‘‘۔
حالیہ دِنوں میں دوسری بار ٹرمپ نے کھلے عام اوباما پر حملہ کیا ہے۔ ہفتے کے روز، ٹرمپ نے ایک غیر مصدقہ ٹوئیٹ میں اپنی صدارتی مہم کے دوران، اوباما پر نیو یارک میں واقع ٹرمپ ٹاور کی وائر ٹیپنگ کا الزام لگایا تھا۔
اوباما نے کیوبا میں واقع امریکی فوجی اڈے پر واقع متنازع قیدخانے کو بند کرنے پر غور و خوض کیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس تنصیب کو جاری رکھیں گے، قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ بند کریں گے اور ممکنہ طور پر نئے قیدی وہاں بھیجیں گے۔