(واشنگٹن کی لائبریری آف کانگریس میں اردو کی 50 ہزار سے زیادہ کتابیں اور مخطوطے موجود ہیں۔ ان میں بہت سی نایاب کتابیں شامل ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے کروڑوں اردو جاننے والے دور ہونے کی وجہ سے ان کتابوں سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ وائس آف امریکہ نے دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے سے نایاب کتابیں تلاش کرکے اپنے قارئین کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے)
حیدرآباد دکن کے وزیراعظم مختار الملک 1876 میں بحری راستے سے انگلستان گئے تو ان کا لاؤ لشکر ہمراہ تھا جس میں 52 افراد شامل تھے۔ ان میں ایک منشی صاحب بھی تھے جنھیں شاید اسی لیے ساتھ لے جایا گیا کہ وہ سفر کا احوال لکھتے جائیں۔ انھوں نے محل سے نکلتے ہی سفرنامہ شروع کیا اور واپسی تک تفصیل سے تمام احوال رقم کرتے رہے۔
یہ سفرنامہ غالباً کبھی شائع نہیں ہوا اور اس کا اصلی قلمی نسخہ کئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا لائبریری آف کانگریس تک پہنچ کر محفوظ ہوگیا۔
مختار الملک کا اصل نام میر تراب علی خان اور لقب شجاع الدولہ تھا۔ لیکن دنیا انھیں سالار جنگ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ 1829 میں پیدا ہوئے اور 1853 میں صرف 24 سال کی عمر میں دکن کے وزیراعظم بن گئے۔ اس وقت ناصر الدولہ نظام دکن تھے۔
ناصر الدولہ کے انتقال کے بعد افضال الدولہ نظام بنے۔ لیکن، مختار الملک وزیراعظم رہے۔ 12 سال بعد افضال الدولہ کا انتقال ہوا تو ولی عہد میر محبوب علی خاں صرف ڈھائی سال کے تھے۔ مختار الملک نے ان کے جوان ہونے تک ریاست کا تمام انتظام سنبھالا اور جب وہ 16 سال کے ہوئے تو زمام اقتدار انھیں منتقل کردی۔
گویا یہ سفرنامہ اس دور کا ہے جب نواب مختار الملک کا اقتدار نصف النہار پر تھا۔
سفرنامے کے پہلے صفحے پر درج ہے کہ سفر کا آغاز 7 ربیع الاول 1293 ہجری کو ہوا۔ ہم حساب لگا کر دیکھ سکتے ہیں کہ اس روز عیسوی تاریخ 2 اپریل 1876 تھی۔ نواب صاحب 8 اپریل کو بحری جہاز پر سوار ہوئے اور عدن، پورٹ سعید اور اٹلی کی بندرگاہوں پر رکے۔ ایک تہائی سفرنامہ بحری سفر کے احوال پر مبنی ہے۔
نواب صاحب کے لشکر میں منشی صاحب کے علاوہ داروغہ صاحب، باورچی اور دوسرے لوگ بھی تھے۔ ایک صاحب نے عدن کی بندرگاہ سے سامان خریدا اور کسی سے کہا کہ اسے جہاز پر پہنچا دو۔ وہ سامان سمیت غائب ہوگیا یا تاخیر کردی۔ جہاز کے چلنے کا وقت مقرر تھا۔ وہ پیٹتے رہ گئے اور سامان کے بغیر روانہ ہونا پڑا۔
نواب صاحب کا لشکر کھانے پینے کا کافی سامان لے کر جہاز پر چڑھا تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ مناسب تعداد میں کاغذ قلم رکھنا بھول گیا۔ منشی صاحب کو بھی یاد نہ رہا۔ سفرنامے کے اوراق کہیں ایک لائن کے مضبوط کاغذ کے ہیں، کہیں ہلکا سادہ کاغذ ہے، کہیں نسبتاً چھوٹا ہے، کہیں پکی روشنائی کی تحریر ہے، کہیں پینسل استعمال کی گئی ہے۔ منشی صاحب کی لکھائی شروع سے آخر تک پہچانی جا سکتی ہے۔ لیکن، کہیں کہیں انھوں نے جلدبازی میں گھسیٹا گھساٹی کی ہے۔
ان دنوں اٹلی میں بادشاہت قائم تھی۔ روم میں نواب صاحب کی ملاقات اٹلی کے بادشاہ وکٹر ایمونوئل دوم، ولی عہد اور پوپ پیوس نہم سے ہوئی۔ 13 مئی کو وہ پیرس پہنچے اور اتفاق سے اسی شام ہوٹل کی سیڑھیوں سے گر کے ٹانگ تڑوا بیٹھے۔
منشی صاحب نے کم لیکن نواب صاحب کے سیکریٹری سید حسین بلگرامی نے اس کا احوال اپنی کتاب میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہے۔ ان کی کتاب اے میموئر آف سر سالار جنگ 1883 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ وہی سید حسین بلگرامی ہیں جو بعد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے سیکریٹری جنرل بنے۔
نواب صاحب پیرس میں دو ہفتے آرام کے بعد انگلستان پہنچے اور وہاں دو ماہ قیام کیا۔ ملکہ معظمہ کے علاوہ متعدد اہم شخصیات سے ملے۔ کئی شہروں کا دورہ کیا۔ ان کی ایک اچھی عادت یہ تھی کہ اپنے سارے عملے کو ساتھ ٹھہراتے تھے اور ساتھ سیر کرتے تھے۔
ایک مقام پر منشی صاحب لکھتے ہیں کہ ملکہ معظمہ کی عمر 57 سال ہے۔ انھوں نے بالکل ٹھیک حساب لگایا کیونکہ ملکہ وکٹوریہ نے 1819 کو جنم لیا تھا۔ اتفاق سے ملکہ کے بھی ایک منشی مشہور ہیں جن کا نام عبدالکریم تھا۔ لیکن جن دنوں نواب صاحب نے لندن کا سفر کیا، وہ انگلستان نہیں پہنچے تھے۔
سفرنامے کی جلدبندی ناقص ہے اور اس میں کیڑا لگا ہوا ہے۔ اوراق میں سوراخ ہیں۔ سفرنامے کا بیشتر حصہ پڑھت کے قابل ہے۔ لیکن، کہیں کہیں تحریر اتنی دھندلی ہے کہ اندازے سے پڑھنا پڑتا ہے۔ ایک مقام پر منشی صاحب نے لندن میں خریدی گئی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کا ذکر کیا ہے۔ افسوس کہ وہ صفحہ پڑھا نہیں جا سکتا۔ صرف پاؤنڈ اور شلنگ کے الفاظ سمجھ میں آتے ہیں۔
میں نے خاتون لائبریرین شارلٹ سے دریافت کیا کہ یہ قلمی نسخہ لائبریری آف کانگریس تک کیسے پہنچا۔ انھوں نے بتایا کہ 2001 میں ضمیر اختر نقوی نے لائبریری کو کتابوں کا ایک ذخیرہ دیا تو اس میں کئی مخطوطے شامل تھے۔ یہ ان میں سے ایک ہے۔
پھر میں نے علامہ صاحب کو فون کرکے پوچھا کہ انھیں یہ مخطوطہ کہاں سے ملا؟ انھوں نے بتایا کہ حکیم مظفر حسین حیدرآباد دکن کے سالار جنگ میوزیم کو قلمی کتابیں تلاش کرکے دیتے تھے۔ مجھے یہ نسخہ ان کے بیٹے سے ملا۔
قارئین کی دلچسپی کے پیش نظر اس سفرنامے کے آخری صفحات کی چند سطریں یہ ہیں:
کھانے اور نماز عشا سے فارغ ہو کر داروغہ صاحب، غلام جنگ بہادر، اعظم عثمان صاحب، مسٹر ہنری صاحب چوک دیکھنے کے لیے جو ہماری فرودگاہ سے قریب تھا، گئے۔ ہر چہار جانب بازار اور وسط میں اوپر ایک گھومتا ہوا بہت بڑا گیند واقع ہے۔ اور اسی گیند پر ہزار ہا چراغ روشن ہیں۔ اسی طرح تمام دوکانوں میں چراغوں کی سی روشنی مثل ستارہ ہائے آسمان روشن ہے۔ چوک کے نزدیک ایک بہت بڑا مقام واضح ہے جہاں مرد و زن ہواخوری کی خاطر بیٹھے ہوئے لطف مذاق کی باتیں کیا کرتے ہیں۔ بعد سیر بوقت نصف شب یہاں سے واپس ہوئے۔
صبح 13 تاریخ ہفتے کے دن گیارہ بجے کے عمل میں شہر سے بگھی پر سوار ہوکر اسٹیشن پہنچے۔ بارہ بجے کے وقت میں داروغہ صاحب ریل پر سوار ہوگئے۔ ریل تمام روز و شنبہ و شب یک شنبہ چلتی رہی۔ پیر کے دن پندرہ تاریخ تین پہر کے عمل میں برنڈیزی، جو ملک اٹالیا کا سرحدی شہر ہے، جہاں ملک اٹالیا کی سرحد تمام ہوتی ہے، پہنچے۔ روز جمعہ جہاز پر سوار ہوئے۔ اگرچہ یہ جہاز اس جہاز جیسا نہیں، بہتر اور عرض میں پندرہ گز، طول میں چوبیس گز ہے لیکن کہتے ہیں کہ پرانا ہے۔ مگر میرے خیال میں اس جہاز کا ہر حجرہ کشادگی و غیرہ میں جہاز سابق کے حجروں سے بہت بہتر و درست ہے۔ میرے لیے ایک حجرہ بلاشراکت غیر تجویز کیا گیا۔