بھارت کی مشرقی ریاست اڑیسہ کے بالاسور میں جمعے کو پیش آنے والے دو عشروں کے بدترین ٹرین حادثے کے بعد ملک میں ریل کا سفر محفوظ ہونے سے متعلق ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔تین ٹرینوں کے اس تصادم میں 300 سے زائد افراد ہلاک جب کہ ایک ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت ریل کا سفر محفوظ بنانے سے زیادہ نئی اور تیز رفتار ٹرینوں کی تشہیری مہم پر توجہ دے رہی ہے۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ ریل کے سفر کو محفوظ بنانا اس کی اولین ترجیح ہے۔
وزیر اعظم نریند رمودی ہفتے کو گوا سے ممبئی تک چلنے والی تیز رفتار ٹرین ’وندے بھارت‘کا افتتاح کرنے والے تھے لیکن حادثے کی وجہ سے پروگرام ملتوی کر دیا گیا۔ وندے بھارت جاپان کی بلٹ ٹرین سے متاثر ہو کر تیار کی گئی ہے۔ یہ منصوبہ وزیر اعظم مودی کے فلیگ شپ پروگراموں میں سے ایک ہے۔
ریل نیٹ ورک بھارت کی 'لائف لائن'
ٹرینوں کو بھارت کے عوام کی لائف لائن کہا جاتا ہے۔ ملک میں ٹرین کی پٹریوں کی لمبائی 40 ہزار میل ہے اور یومیہ لاکھوں مسافر ان ٹرینوں سے سفر کرتے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ دنوں ریلوے کے بنیادی ڈھانچے اور اسے جدید بنانے کے لیے ریکارڈ بجٹ مختص کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر چہ حکومت کی توجہ ریلویز کی جدید کاری اور اصلاحات پر ہے تاہم سیکیورٹی اور سیفٹی انڈین ریلوے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حکومت اصلاحات اور ٹرینوں کی تعداد میں اضافے پر تو توجہ دے رہی ہے لیکن اس تناسب میں افرادی قوت میں اضافہ نہیں کر رہی ہے۔ اسٹاف کم ہے جس پر کام کا بہت زیادہ بوجھ ہے جس کی وجہ سے انسانی غلطیاں زیادہ ہو رہی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت نے سینئر سٹیزنز کو کرائے میں دی جانے والی چھوٹ کرونا کی وبا کے وقت واپس لے لی تھی جسے تاحال بحال نہیں کیا گیا ہے۔ اس نے صحافیوں کی چھوٹ بھی ختم کر دی اور دیگر کئی سہولتیں بھی واپس لے لی ہیں۔
محکمہ ریلوے میں لاکھوں خالی آسامیاں
محکمہ ریلوے کے سابق ترجمان ایم وائی صدیقی کہتے ہیں کہ پہلے ریلوے وزیر کی جانب سے ریلوے کا علیحدہ بجٹ پیش کیا جاتا تھا۔ ملک بھر کے عوام اس کو سنتے، پڑھتے اور نئی نئی تجاویز پر بحث و مباحثہ کرتے اور جائزہ لیتے تھے۔ لیکن مودی حکومت نے ریلوے بجٹ کو 2017 میں عام بجٹ میں ضم کر دیا جس کی وجہ سے سیفٹی پر توجہ کم ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس نے ریلوے کا بجٹ بھی کم کر دیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ٹرینوں کی دیکھ بھال کا بھی بجٹ کم کر دیا ہے۔ کئی لاکھ اسامیاں خالی پڑی ہیں جن کو پُر نہیں کیا جا رہا ہے۔ بہت سے شعبے نجی کمپنیوں کو دے دیے گئے ہیں۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑہ نے اتوار کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں حادثے کے لیے حکومت کو ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’رائٹ ٹو انفارمیشن‘ (آر ٹی آئی) کے توسط سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ریلویز میں گروپ سی کی 14 لاکھ 75 ہزار 623 آسامیوں میں سے تین لاکھ 11 ہزار سے زائد آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اسی طرح 18 ہزار 881 گزیٹیڈ عہدوں میں سے 3018 خالی ہیں۔
ویسٹرن ریلویز کے ایک سابق ایئر کنڈیشن انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سگنل، الیکٹریکل اور اسی قسم کے دیگر شعبوں کو نجی کمپنیوں کو دے دیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ 10 ملازمین کی جگہ پر صرف دو کام کر رہے ہیں، وہ بھی پورا وقت نہیں دیتے جس کی وجہ سے بہت سی خرابیاں در آئی ہیں۔ بقول ان کے مذکورہ حادثہ سگنل کے فیل ہونے کی وجہ سے ہوا ہے اور ممکن ہے کہ یہ اسٹاف کی کمی کا نتیجہ ہو۔
ادھر حکومت کے ادارے ’کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل‘ (سی اے جی) نے گزشتہ سال جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2017 سے 2021 کے درمیان دو ہزار سے زائد ٹرین حادثات ہوئے ہیں جن میں 1392 حادثوں میں ٹرینیں پٹری سے اتر گئی تھیں۔
سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں ٹرینوں کے تحفظ کے لیے مخصوص بجٹ کے بارے میں بھی، جس کو ’راشٹریہ ریل سورکشا کوش‘ (آر آر ایس کے) کہا جاتا ہے، سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ اس بجٹ میں تخفیف کی گئی ہے اور پٹریوں کی جدید کاری کا بجٹ بھی 2019 اور2020 کے درمیان پورا استعمال نہیں کیا گیا۔
سی اے جی کے مطابق ٹرینوں کے پٹری سے اترنے کے بیشتر واقعات پٹریوں کی دیکھ بھال میں کمی کی وجہ سے ہوئے ہیں۔
حادثے کی وجہ ناقص حفاظتی انتطامات نہیں: محکمہ ریلوے کا دعویٰ
محکمہ ریلوے کا کہنا ہے کہ بالاسور حادثے کا تعلق ریلوے کی سیفٹی سے نہیں ہے۔ ریلوے کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ مذکورہ حادثے میں سیفٹی کا معاملہ اٹھایا جا رہا ہے لیکن اگر آپ غور کریں تو پائیں گے گزشتہ کئی برسوں کے دوران کوئی بڑا ٹرین حادثہ نہیں ہوا۔
ایم وائی صدیقی کے خیال میں اصل معاملہ سیفٹی ہی کا ہے۔ پٹریوں کی دیکھ بھال پر حکومت کی توجہ نہیں ہے۔ آٹومیٹک مشینیں جو پٹریوں میں کریک اور فش پلیٹوں میں خامیوں پر نظر رکھتی ہیں، زنگ آلود ہو رہی ہیں۔ان کو درست نہیں کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار اجے تیواری کہتے ہیں کہ کانگریس ریلوے تحفظ کے معاملے کو اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ انہو ں نے کانگریس صدر اور سابق ریلوے وزیر ملک ارجن کھرگے کے بیان کے حوالے سے کہا ہے کہ حکومت مسافروں کی جان سے کھلواڑ کر رہی ہے۔
ان کے بقول اس تعلق سے مودی حکومت کے چار ریلوے وزیر سدا نند گوڑا، سریش پربھو، پیوش گوئل اور اشونی ویشنو کے بیانات کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ صرف تحفظ سے متعلق شعبے میں ڈیڑھ لاکھ آسامیاں خالی پڑی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق مودی حکومت کے دوران یہ سب سے بڑا ٹرین حادثہ ہے۔ اس سے قبل نومبر 2016 میں کانپور میں ایک ٹرین پٹری سے اتر گئی تھی جس میں 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سینئر تجزیہ کار اور روزنامہ ’آج کی کائنات‘ کے ایڈیٹر شمس الہدیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ حکومت پروپیگنڈہ زیادہ کرتی ہے کام کم کرتی ہے۔ جب سے ریلوے بجٹ کو عام بجٹ میں ضم کیا گیا ہے ریلوے کے سلسلے میں صرف دو تین منٹ ہی بات کی جاتی ہے۔
وہ بھی ایم وائی صدیقی کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کی توجہ ریلوے کی سیکیورٹی و سیفٹی پر بالکل نہیں ہے۔ بقول ان کے سابق ریلوے وزیر ملک ارجن کھرگے نے اپنے دور میں ریلوے کی سیکیورٹی کے سلسلے میں ایک منصوبہ شروع کیا تھا جسے موجودہ حکومت نے نظرانداز کر دیا۔ اگر حکومت نے اس پر سنجیدگی سے عمل کیا ہوتا تو ایسے حادثات نہیں ہوتے۔
سابق ریلوے وزیر اور مغربی بنگال کی موجودہ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے جائے وقوعہ کے دورے کے وقت جب کہ وہاں ریلوے وزیر اشونی ویشنو بھی موجود تھے کہا کہ ان کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس ٹرین حادثے میں ہلاک شدگان کی تعداد 500 ہے۔ اشونی ویشنو نے ان کے اس بیان کی فوراً تردید کی لیکن ممتا بنرجی اپنے بیان پر قائم رہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب وہ ریلوے وزیر تھیں تو انہوں نے ’اینٹی کولائزن ڈیوائس‘ متعارف کرایا تھا جس سے حادثات کم ہو گئے تھے۔ اس ڈیوائس کا کام یہ ہے کہ اگر ایک ہی پٹری پر دو ٹرینیں آگئی ہیں تو وہ انہیں روک دیتا ہے۔
حزب اختلاف اور بالخصوص کانگریس کی جانب سے ریلوے وزیر اشونی ویشنو کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی جانب سے حادثات کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کی سابقہ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ 1956 میں ٹرین حادثے کے بعد جس میں 142 افراد ہلاک ہوئے تھے اس وقت کے ریلوے وزیر لال بہادر شاستری نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سن 1988 میں حادثے کے بعد جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے مادھو راؤ سندھیا نے جب کہ 1999 میں حادثے کے بعد جس میں 290 افراد ہلاک ہوئے تھے نتیش کمار نے استعفی دیا تھا۔
سن 2000 میں دو ٹرین حادثوں کے بعد جن میں 43 افراد ہلاک ہوئے تھے ریلوے وزیر ممتا بنرجی نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ تاہم اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا تھا۔
سوشل میڈیا اور حکومت کے حامی کہے جانے والے بعض میڈیا اداروں کی جانب سے ریلوے وزیر اشونی ویشنو کی حمایت کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اشونی ویشنو جائے وقوعہ پر مسلسل 30 گھنٹے تک رہے اور انہوں نے ریسکیو آپریشن کی خود نگرانی کی۔