پاکستان اور افغانستان میں صنعت و حرفت سے منسلک تاجروں اور صنعت کاروں کی مشترکہ تنظیم کے عہدے داروں کا کابل میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں تنظیم کی جانب سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے اکتوبر 2010 کے ٹرانزٹ معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سے متعلق معاہدہ اکتوبر 2010 میں ہوا تھا۔ اس معاہدے کے بعد 1965 میں ہونے والا معاہدہ ختم ہو گیا تھا۔ افغانستان کے تاجروں اور کاروباری حلقوں کا مطالبہ ہے کہ 1965 کے معاہدے کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
کابل میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان سے 12 افراد پر مشتمل وفد نے شرکت کی تھی جس کے سربراہ زبیر موتی والا تھے۔ وفد میں شامل مشترکہ تنظیم کے نائب صدر ضیاء الحق سرحدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 2010 کے ٹرانزٹ معاہدے سے دونوں ممالک کی دو طرفہ تجارت پر نہایت منفی اثرات پڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کے تحت افغانستان کی درآمدات براستہ کراچی کنٹینروں کے ذریعے بیرون ملکوں سے لائی جاتی ہیں، جس پر بہت زیادہ اخراجات آتے ہیں۔
ضیاء الحق سرحدی کے بقول اس معاہدے کی وجہ سے افغانستان کا پاکستان کے راستے سے ٹرانزت ٹریڈ کا 70 فی صد حجم ایران کے علاقے چاہ بہار اور بندر عباس منتقل ہو چکا ہے۔
ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ افغان تاجروں کی خواہش ہے کہ اُنہیں پاکستان کے راستے سے 1965 کے ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے کے تحت تجارت کے مواقع حاصل ہوں۔ لہٰذا مشترکہ تنظیم نے حکومت پاکستان سے ایس آر او 121 کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ضیاء الحق سرحدی کے بقول افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت بڑھانے سے پاکستان کے بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت بڑھنے کے کافی امکانات ہیں۔
افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت میں اہم کردار ادا کرنے والے ٹرانسپورٹروں کی تنظیم کے صدر شاکر آفریدی نے کابل میں ہونے والے اجلاس کے فیصلوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک سے اس اجلاس میں پیش کی جانی والی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی اپیل کی ہے۔
جولائی 2018 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے اور آسان بنانے کے لیے طورخم کی سرحدی گزرگاہ گزشتہ سال اگست سے دن رات کھول دی تھی۔ اس کے علاوہ ضلع کرم میں خرلاچی اور شمالی وزیرستان کی غلام خان گزرگاہوں پر بھی دو طرفہ تجارت اور آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
البتہ باجوڑ اور اس سے ملحقہ ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے لوگ نواہ پاس اور جنوبی وزیرستان کے کاروباری حلقے انگور اڈہ کی گزرگاہیں کھولنے کے مطالبے کر رہے ہیں۔
ضلع مہمند سے ممبر صوبائی اسمبلی نثار مہمند نے نوا پاس کی سرحدی گزرگاہ کھولنے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مقامی لوگوں کو روزگار کے ذرائع میسر ہوں گے۔
اسلام آباد اور کابل میں حکومتی عہدے داروں نے دونوں ممالک کے تاجروں اور صنعت کاروں کی مشترکہ تنظیم کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر نظر ثانی کے مطالبے پر تاحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
البتہ پاکستان کے کسٹم حکام نے ایک اعلامیے میں پاکستان کے راستے افغانستان اور بھارت کے درمیان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان کی یکم فروری سے مانٹیرنگ کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔