امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اور امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن جاپان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد جنوبی کوریا روانہ ہو گئے۔ اُدھر شمالی کوریا نے امریکی انتظامیہ کو دھمکی دی ہے کہ وہ مشترکہ فوجی مشقوں سے باز رہیں۔
جب امریکی وزرائے دفاع اور خارجہ ٹوکیو میں اپنے ہم منصبوں سے مذاکرات کر رہے تھے، اس وقت شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن کی بہن، کم یو جونگ نے امریکہ اور جنوبی کوریا پر مشترکہ فوجی مشقیں کرنے پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ کو متنبہ کیا کہ وہ خطے میں ’فساد‘ پھیلانے سے باز رہے۔
کم یو جونگ کے بیان میں، جسے شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے شائع کیا، امریکہ کی 'نئی انتظامیہ' کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ چار برسوں کے دوران 'چین کی نیند سوئیں' تو پھر اُن کے لیے یہ اچھا ہو گا کہ وہ 'وار گیمز' یا جنگی حربوں سے پرہیز کریں۔
بیان میں جنوبی کوریا کے حکام سے کہا گیا ہے کہ جنگی مشقیں شروع کرنے پر انہیں 'نتائج' کا سامنا کرنے کو تیار رہنا چاہئے۔ یہ مشقیں اس مہینے کے آغاز پر شروع ہوئی تھیں۔
شمالی کوریا کی جانب سے یہ بیان ، امریکہ کی نئی انتظامیہ کے خلاف پہلی ایسی دھمکی ہے۔ اس سے پہلے، شمالی کوریا نے ایسی ہی شعلہ بیانی کا مظاہرہ ٹرمپ انتظامیہ کے ابتدائی ایام میں کیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اپنے ہم منصبوں سے بات چیت کرتے ہوئے دونوں امریکی وزرائے خارجہ کے دورہ جنوبی کوریا کے درمیان یہ دھمکی بھی زیر بحث آئے گی۔
جاپان میں امریکی عہدیداروں کی بات چیت کے دوران جہاں شمالی کوریا کی جانب سے خطے کو لاحق مسلسل خطرہ بات چیت کا حصہ رہا، وہاں مرکزی موضوع چین کے بڑھتے ہوئے جارحانہ عزائم تھے۔ ملاقات کے دوران، جاپانی عہدے داروں نے، تائیوان اور متنازع سین کاکُو جزائر کے خلاف چین کے بڑھتے ہوئے خطرے کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
جاپان میں اینٹنی بلنکن اور لائیڈ آسٹن کی اپنے ہم منصبوں، جاپانی وزیر خارجہ ٹوشی مٹسو موٹیگی اور جاپانی وزیر دفاع نو بو او کیشی سے ہونے والی ملاقات کو "ٹو پلس ٹو" ملاقات کا نام دیا گیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے دونوں اہم ترین وزرا کا یہ پہلا سفارتی غیر ملکی دورہ ہے۔
جاپانی وزیر خارجہ سے علیحدہ ملاقات سے قبل، بلنکن کا کہنا تھا کہ واشنگٹن اور ٹوکیو 'جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، لیکن ان اقدار کو خطے میں چین اور برما سے خطرے کا سامنا ہے'۔ برما میانمار کا پرانا نام ہے۔
جاپانی وزیر خارجہ موٹیگی کا ملاقات کے بعد کہنا تھا کہ وہ اور ان کے امریکی ہم منصب، چین کی جانب سے جنوبی چین کے سمندر اور اس کے مشرق میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے خلاف ہیں۔ چین نے ان پانیوں میں جارحانہ طور پر اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کیا ہے اور زیادہ بحری علاقے پر اپنے حقوق کا دعوے دار ہے۔
پیر کے روز اخبار دی واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے ایک مشترکہ مضمون میں، بلنکن اور آسٹن نے چین کے بارے میں کہا کہ وہ ایک ایسا ملک ہے جو خطے میں عالمی نظم و نسق کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر، تبت اور سنکیانگ میں انسانی حقوق کی پامالیوں، ہانگ کانگ کی خود اختیاری کو ختم کرنے، تائیوان میں جمہوریت کو دبانے اور جنوبی چین کے سمندر میں بین الاقوامی قوانین کی پامالی پر چین کو جوابدہ ٹھہرائے گا۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کی جانب سے جاپان اور جنوبی کوریا کو اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے منتخب کرنا، امریکی صدر جو بائیڈن کی ایشیا میں سلامتی کے حوالے سے تشویش کا آئینہ دار ہے۔
امریکی ادارے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ تجزیہ کار پیٹریشیا کِم کہتی ہیں کہ امریکی وزرائے خارجہ اور دفاع کی جانب سے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے جاپان اور جنوبی کوریا جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اپنے ان دو شراکت داروں اور اتحادیوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
پیٹریشیا کِم کہتی ہیں کہ چین کی جانب سے لاحق چیلنجوں اور جزیرہ نما کوریا میں امن کے فروغ کے لیے، جنوبی کوریا اور جاپان امریکہ کے اہم ترین اتحادی ہیں۔
دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تعلقات کچھ عرصے سے کشیدہ ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو سابق ٹرمپ انتظامیہ کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ تھی، اور دوسری چین کی خطے میں بڑھتی ہوئی فوجی طاقت ہے۔
تاہم اس کے باوجود امریکہ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ چین سے بات چیت کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے ہوئے ہے۔
اس ہفتے کے اواخر میں، امریکی وزیر خارجہ بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، چین کے وزیر خارجہ وانگ یی اور چوٹی کے سفارت کار ینگ جی چی سے امریکی ریاست الاسکا میں ملاقات کریں گے۔