رسائی کے لنکس

بائیڈن اور ٹرمپ کے مباحثے میں کن بڑے مسائل پر بحث ہوئی؟


  • بائیڈن نے کہا کہ اپنی صدارت کے آغاز میں انہیں اپنے پیشرو سے ایک ناکام معیشت وراثت میں ملی تھی۔
  • ٹرمپ نے اپنی معاشی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ وبائی مرض کووڈ نائنٹین سے نمٹنے کو ایک فخریہ کامیابی کے طور پر پیش کیا۔
  • بائیڈن نے کہا کہ اگر انہیں صدارت کا ایک اور دور ملتا ہے تو وہ اسقاطِ حمل کے معاملے پر خواتین کے اسقاطِ حمل کے حق کو تحفظ دینے والے "رو بنام ویڈ" نامی کیس کے فیصلے کو بحال کریں گے۔
  • ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسقاطِ حمل کی گولیوں تک رسائی کو نہیں روکیں گے۔
  • بائیڈن نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کو ایک جنگی مجرم قرار دیا۔
  • ٹرمپ نے اپنے اس دعوے پر زور دیا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو روس یوکرین جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔

امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے صدارتی مباحثے میں کئی اہم مسائل پر ایک دوسرے کے مقابل اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔

امریکہ میں رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے صدر بائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے امیدوار ہیں جب کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کے پلیٹ فارم سے امیدوار ہوں گے، جن کی نامزدگی کا باقاعدہ اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔

امریکہ میں انتخابات سے قبل صدارتی امیدواروں کے درمیان مباحثے کی روایت ہے اور اسی روایت کے تحت جمعرات کو بائیڈن اور ٹرمپ نشریاتی ادارے 'سی این این' کے زیرِ اہتمام مباحثے میں شریک ہوئے۔

مباحثے کے میزبان نے صدارتی امیدواروں سے مقامی مسائل جیسا کہ مہنگائی، اسقاطِ حمل، امیگریشن اور سرحدی امور سمیت عالمی مسائل پر بھی سوالات کیے۔

مہنگائی پر گفتگو

مباحثے کے میزبان جیک ٹیپر نے پہلا سوال مہنگائی کے بارے میں کیا اور کہا کہ بہت سے امریکی ووٹروں کے لیے یہ اہم ترین مسئلہ ہے۔

بائیڈن نے اس سوال کے جواب میں ٹرمپ کو مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے کہا کہ اپنی صدارت کے آغاز میں انہیں اپنے پیشرو سے ایک ناکام معیشت وراثت میں ملی تھی۔

بائیڈن نے کہا کہ ان حالات میں ان کا کام چیزوں کو دوبارہ ایک ساتھ رکھنے کی کوشش کرنا تھا۔

بائیڈن نے معاشی میدان میں اپنی رہنمائی کی تعریف کرتے ہوئے اپنے دلائل میں ایک متوازن انداز اختیار کیا اور ساتھ ہی تسلیم کیا کہ بہت سے امریکیوں کو اشیا کی زیادہ قیمتوں سے تکلیف پہنچ رہی ہے۔

اس دوران ٹرمپ نے اپنی معاشی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ وبائی مرض کووڈ نائنٹین سے نمٹنے کو ایک فخریہ کامیابی کے طور پر پیش کیا۔

اقتصادی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ کے سال 2017 میں ٹیکسوں میں کٹوتیوں کے اقدام سے کچھ اقتصادی ترقی ہوئی۔ تاہم، یہ ترقی ٹرمپ کے وعدے کے کہیں قریب بھی نہیں تھی۔

رواں سال مئی میں کیے گئے گیلپ پول کے مطابق ہر دس میں سے تین امریکیوں کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مسائل میں سے معیشت سب سے اہم مسئلہ ہے۔

اسقاطِ حمل کا حق

پہلے صدارتی مباحثے میں تولیدی حقوق بھی نمایاں رہے۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اسقاطِ حمل کی گولیوں تک رسائی کو نہیں روکیں گے۔

ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے امریکی سپریم کورٹ میں تین ججوں کا تقرر کیا تھا جنہوں نے 2022 میں کیے گئے ایک عدالتی فیصلے میں اسقاطِ حمل کے آئینی حق کو کالعدم قرار دینے میں مدد کی۔

اس فیصلے کی روشنی میں امریکی ریاستوں کو اسقاطِ حمل پر پابندی کے قوانین نافذ کرنے کی بنیاد میسر آئی۔

تاہم، ٹرمپ نے بحث کے دوران کہا کہ وہ ریپ، قریبی رشتے داروں سے بدکاری اور ماں کی جان کو خطرہ ہونے کی صورتوں میں اسقاطِ حمل کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس موقع پر ٹرمپ نے دیر سے ہونے والے اسقاطِ حمل کے بارے میں بھی کئی جھوٹے دعوے کیے۔

دوسری طرف بائیڈن نے تولیدی حقوق کے بارے میں اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر انہیں صدارت کا ایک اور دور ملتا ہے تو وہ خواتین کے اسقاط حمل کے حق کو تحفظ دینے والے "رو بمقابلہ ویڈ" نامی کیس کے فیصلے کو بحال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ وہ دیر سے کیے جانے والے اسقاطِ حمل کے مخالف ہیں۔

روس یوکرین جنگ

مباحثے کے دوران صدر بائیڈن اور ٹرمپ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کی جانب سے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے رکھی گئی شرائط کی مخالفت پر اتفاق کرتے نظر آئے۔

تاہم، ٹرمپ نے اپنے اس دعوے پر زور دیا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ انہوں نے یوکرین کے لیے امریکی امداد پر بھی تنقید کی۔

صدر بائیڈن نے کہا کہ ٹرمپ امریکہ کو مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو سے باہر نکالیں گے اور اس طرح جنگ کے پھیلنے کا خطرہ مول لیں گے۔

یوکرین جنگ پر بات کرتے ہوئے بائیڈن نے روسی صدر پوٹن کو ایک جنگی مجرم قرار دیا۔

اسرائیل حماس جنگ

مباحثے میں بائیڈن اور ٹرمپ نے اسرائیل حماس جنگ سے متعلق خارجہ پالیسی کے سوالات پر بھی کھل کر مخالفت کا اظہار کیا۔

ٹرمپ نے بائیڈن کے جنگ سے نمٹنے کے طریقۂ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ بائیڈن "فلسطینیوں کی طرح" ہو گئے ہیں، ان کی حکومت یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ اسرائیل غزہ میں شہریوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کرے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے اپریل میں دیے گئے ایک انٹرویو میں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں حماس کے حملے کو روکنا چاہیے تھا۔

بائیڈن نے ٹرمپ کی اس تنقید کو مسترد کر دیا کہ ان کی انتظامیہ نے اسرائیل کو بھیجے جانے والے کچھ ہتھیار روک لیے ہیں۔

صدر بائیڈن نے کہا "ہم اسرائیل کو وہ تمام ہتھیار فراہم کر رہے ہیں جن کی اسے ضرورت ہے۔ اس موقع پر بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے اپنی تین مرحلوں پر مشتمل تجویز کا بھی خاکہ پیش کیا۔

بائیڈن نے حماس کو معاہدہ نہ ہونے کا موردِ الزام بھی ٹھہرایا۔

بائیڈن کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا "اسرائیل ایک ہے۔ اور آپ کو اسے جانے دینا چاہیے اور انہیں اپنا کام ختم کرنے دینا چاہیے۔"

جواب میں بائیڈن نے کہا،"میں نے اتنی بے وقوفی کبھی نہیں سنی۔"

غزہ میں جنگ پچھلے سال اکتوبر میں اسرائیل پر حماس کے حملے سے شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1,200 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ حماس نے تقریباً 250 افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔

غزہ کی حماس کے زیرِ انتظام وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 37,700 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

جمہوریت کو خطرہ

بائیڈن نے صدارتی مباحثے کے دوران ٹرمپ کو امریکی جمہوریت کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا۔

بائیڈن نے ٹرمپ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "اسٹیج پر واحد آدمی جو سزا یافتہ مجرم ہے وہ آدمی ہے جسے میں دیکھ رہا ہوں۔"

ایک موقع پر انہوں نے کہا "آپ کے اخلاق گلی کی بلی جیسے ہیں۔"

خیال رہے کہ گزشتہ میں ٹرمپ کو سابق پورن اسٹار کو پیسے دے کر خاموش رکھنے کے ایک مقدمے میں 34 سنگین جرائم کا مرتکب پایا گیا تھا۔ اس طرح وہ کسی بڑی امریکی سیاسی پارٹی کے پہلے امیدوار ہیں جنہیں کسی مقدمے میں مجرم پایا گیا ہے۔

علاوہ ازیں، ٹرمپ کو امریکی کانگریس کی عمارت پر چھ جنوری 2021 کی ان کے حمایتیوں کی طرف سے حملہ کرنے میں اپنے کردار پر اضافی قانونی الزامات کا بھی سامنا ہے۔

دوران بحث ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات میں مداخلت کے بارے میں اپنے دعووں کو دہرایا اور کیپٹل ہل پر 2021 کے حملے کی شدت کو کم پیش کرنے کی کوشش کی۔

ٹرمپ نے اپنے حق میں دلیل دی کہ انہوں نے عمارت کے دفاع کے لیے نیشنل گارڈ کے دستے فراہم کرنے کی پیشگی پیشکش کی تھی۔

مباحثے کی شریک میزبان ڈانا باش نے ٹرمپ سے سوال کیا کہ آیا وہ 2024 کے انتخابی نتائج کو قبول کریں گے؟ جس پر ٹرمپ نے کہا کہ اگر یہ منصفانہ طریقے سے انجام پائے تو وہ اس کے نتائج کو مانیں گے۔

تاہم، اس سے قبل ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ٹرمپ نے اصرار کیا تھا کہ ڈیموکریٹس انتخابات میں دھوکہ دہی سے کام لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ایسا کوئی بھی انتخاب جس میں وہ کامیاب نہیں ہوتے اس میں دھاندلی کا امکان ہو گا۔

فورم

XS
SM
MD
LG