عالمی کپ تنظیم میں شامل ایک اعلیٰ قطری عہدیدار نے فٹ بال کے اس بڑے ایونٹ کے لیے کی جانے والی تعمیرات کے دوران ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعدادچارسو اور پانچ سو کے درمیان بتائی ہے جو اس سے قبل دوحہ کی طرف سے پیش کیے گئے اعداد وشمار سے کافی زیادہ ہے۔
قطر کی ترسیل اور ورثہ کی سپریم کمیٹی کے سیکرٹری جنرل حسن الثہوادی نے برطانوی صحافی پیئرز مورگن کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران یہ اعتراف کیا۔
ان کے اعتراف نے انسانی حقوق کے گروپوں کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے تعمیرات کے دوران ان غیر ملکی مزدوروں کی جانوں کے ضیاع پر تنقید کو پھر سے تقویت دی ہے جنہوں نے 200 ارب ڈالر مالیت کے اسٹیڈیم، میٹرو لائنز اور ٹورنامنٹ کے لیے درکار نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر کے دوران اپنی جانیں قربان کیں۔
انٹرویو میں، جس کے کچھ حصے مورگن نے آن لائن پوسٹ کیے، برطانوی صحافی نے الثہوادی سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں ان تارکین وطن کارکنوں کی حقیقت پسندی پر مبنی ایماندارانہ کل تعداد کیا ہوگی جو ورلڈ کپ کے لیے کام کرتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔
الثہوادی نے جواب دیا۔ میرے پاس صحیح تعداد نہیں ہے۔ اندازاً یہ تعداد 400 اور 500 کے درمیان ہے۔
ہلاکتوں کے ان اعداد و شمار پر اس سے پہلے قطری حکام نے کبھی عوامی سطح پر بات نہیں کی۔
اس سے قبل سرکاری طور پر جاری کردہ اعداد و شمار میں اموات کی کل تعداد 40 بتائی گئی تھی۔ ان میں 37 وہ افراد بھی شامل ہیں جو قطری حکام کے مطابق دل کا دورہ پڑنے سے اور دوسرے ایسے واقعات میں ہلاک ہوئے جو کام سے متعلق نہیں تھے۔ جب کہ تین افراد کام کی جگہ پر ہلاک ہوئے۔ ایک علیحدہ رپورٹ میں وبا کے درمیان کرونا وائرس سے ایک کارکن کی ہلاکت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
الثہوادی نے انٹرویو میں اشارہ دیا کہ یہ اعداد وشمار صرف اسٹیڈیم پر کام کے حوالے سےہیں۔ ٹورنامنٹ کے لیے تمام بنیادی ڈھانچے میں اموات کی تعداد 400 سے 500 کے درمیان ہے۔
بعد میں ایک بیان میں، سپریم کمیٹی نے کہا کہ الثہوادی 2014-2020 کی مدت کے دوران ملک بھر میں کام سے متعلق ہونے والی تمام 414 اموات کا حوالہ دے رہے تھے، جن میں تمام شعبوں اور قومیتوں کے لوگ شامل ہیں۔
2010 میں جب سے فیفا نے قطر کو ٹورنامنٹ کی میزبانی کے اعزاز سے نوازا تھا، اس نے ملک کے روزگار کے طریقوں کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کیےتھے۔ جس میں روزگار کے کفالہ نظام کو ختم کرنا بھی شامل تھا ، جو کارکنوں کو اپنے آجروں کا پابند بناتا ہے اور ان سے علیحدگی کی صورت میں انہیں اپنی ملازمت اور ملک چھوڑنا پڑتا تھا۔
قطر نے مزدوروں کے لیے کم از کم ماہانہ اجرت 1000 قطری ریال یعنی 275 امریکی ڈالر مقرر کی اور ایسے ملازمین کے لیے ضروری خوراک اور رہائش الاؤنس کا بھی انتظام کیا جو اپنے آجروں سے براہ راست یہ فوائد حاصل نہیں کر رہےتھے۔
قطر نےاموات کو روکنے کے لیے کارکنوں کے حفاظتی ضابطوں میں بھی اضافہ کیا۔
الثہوادی کا انٹرویو میں مزید کہنا تھا کہ سیدھی سی بات ہے کہ ایک انسان کی موت ،کئی لوگوں کی موت ہوتی ہے۔
اجرتیں وقت پر ملیں اور وہ آجروں کی بدسلوکی سے محفوظ رہیں۔
الثہوادی کا تبصرہ خلیجی عرب ریاستوں میں سرکاری اور نجی کاروبار، دونوں کی رپورٹنگ کی صداقت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے، جن کی فلک بوس عمارتیں جنوبی ایشیائی ممالک جیسے بھارت، پاکستان اور سری لنکا کے مزدوروں نے تعمیر کی ہیں ۔
مشرق وسطیٰ میں تارکین وطن کارکنوں کی وکالت کرنے والے،لندن میں قایم گروپ فیئر اسکوائر کے عہدے دار نکولس میک گیہن نے کہا ہے کہ یہ قطر کی جانب سے کارکنوں کی ہلاکتوں کے معاملے پر شفافیت کے ناقابل معافی فقدان کی تازہ ترین مثال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم صحیح اعداد وشمار اور مکمل تحقیقات چاہتے ہیں۔ میڈیا انٹرویوز کے ذریعے اعلان کردہ مبہم اعداد و شمار نہیں۔
فیفا اور قطر کو ابھی بھی بہت سے سوالات کے جواب دینےہیں کہ وہ کم از کم یہ بتائیں کہ یہ لوگ کہاں، کب اور کیسے ہلاک ہوئے اور کیا ان کے اہل خانہ کو معاوضہ ملا۔
مصطفی قادری نے، جو ایک لیبر کنسلٹنسی، ایکویڈم ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرہیں، غیر ملکی مزدوروں کی تعمیرات کے دوران ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں رپورٹیں شائع کی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ وہ الثہوادی کے بیان پر حیران ہیں۔
مصطفیٰ قادری نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، کہ الثہوادی کا انٹرویو دینا اور یہ کہنا کہ مرنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے چونکا دینے والی بات ہے۔انہیں اس بات کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
اس رپورٹ کے لیے معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں۔