رسائی کے لنکس

تنازعات اور غربت: کرونا کے باعث دو ارب لوگ امداد کے منتظر


یمن میں آج کل یہ بات ہر زباں پر ہے کہ کرونا وائرس سے زندگی کو خطرہ لاحق ہے، لیکن بھوک سے موت یقینی ہے۔

یمن کی سماجی ترقی کے فنڈ کی سربراہ لمس الاریانی نے یہ بات ملک کے تین کروڑ عوام کی زبوں حالی بیان کرتے ہوئے بدھ کے روز ایک آن لائن مباحثے میں بتائی۔

انہوں نے کہا کہ یمن کے لوگ پہلے ہی پانچ سال سے جاری جنگ مفلسی اور بھوک جیسے مسائل سے دوچار ہیں اور اب کووڈ نائنٹین کے بحران نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے؛ اور اندیشہ ہے کہ کرونا وائرس ملک کی 55 فیصد آبادی کو متاثر کرے گا۔ کرونا وائرس کی وبا کے پھیلنے سے پہلے ہی 80 فیصد آبادی کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی ضرورت تھی۔

یمن مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا اور براعظم افریقہ کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں جنگی حالات و تنازعات اور غربت کی وجہ سے حکومتیں اور معاشرے کووڈ نائنٹین کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔

یو ایس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے زیر اہتمام مباحثے میں بات کرتے ہوئے لمس اریانی نے کہا کہ مناسب تعداد میں صحت عامہ کے ساز و سامان کی عدم دستیابی کی وجہ سے اب تک یمن میں صرف 800 کرونا ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔ اور اب تک صرف 65 مصدقہ کیس سامنے آئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اگلے ہی روز عدن شہر میں 60 لوگوں کی سانس لینے میں تکلیف کی وجہ سے اموات واقع ہوئیں۔ ملک کی تین کروڑ میں سے دو کروڑ آبادی کے پاس ہاتھ دھونے جیسی صفائی کی بنیادی سہولت میسر نہیں۔ خوراک کی قلت کی وجہ سے دو کروڑ لوگوں میں قوت مدافعت کی کمی ہے۔ ایک وقت میں ہسپتالوں میں 700 مریضوں کو انتہائی نگہداشت میں رکھا جا سکتا ہے، جبکہ وینٹی لیٹرز کی تعداد صرف 500 ہے۔

ان کے بقول، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں امید کی ایک کرن لوگوں کا کمیونٹی تنظیموں کے ذریعے ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے۔

گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے، لائبیریا کے وزیر خزانہ سیمیول توی جونیئر نے کہا کہ ملک میں اب تک کووڈ نائنٹین کے 212 مصدقہ کیس سامنے آئے ہیں، جب کہ 20 اموات ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کے کرونا بحران ان کے ملک کی 'ایبولا' مرض کے خلاف جنگ کے فوراً بعد ایک بڑا چیلنج ہے۔

ان کے مطابق، سب سے بڑا مسئلہ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کو بچانا ہے۔ مالی مشکلات کی وجہ سے سماجی سطح پر بہت سے تناؤ جنم لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بجائے خود خود تمام مالی مسائل سے نمٹ نہیں سکتی اور ملازمتوں کے مواقع کے لئے پرائیویٹ سیکٹر میں اقتصادی کارروائیاں جاری رہنا بہت اہم ہوگا۔

واشنگٹن میں قائم یو ایس آئی پی کی صدر، نینسی لنڈ بورگ نے، جنہوں نے امریکہ کی ایبولا کے متعلق ٹاسک فورس کی رہنمائی کی تھی، مباحثہ کا آغاز کیا۔ اپنے تجربے کی روشنی میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بحران سے مقابلہ کرنے کے لیے تین عوامل بہت ضروری ہیں: شہریوں کا حکومت پر اعتماد، سرکاری فورسز کا بحران کے جواب میں کردار اور بین الاقوامی تعاون۔

انہوں نے کہا کہ اندیشہ ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے کم ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے لوگ مالی نقصان سے دوچار ہوں گے اور لوگ بڑی تعداد میں میں غربت کی لکیر کی طرف واپس چلے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے امریکہ کم ترقی یافتہ ممالک کو امداد فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ جب مباحثے کے میزبان، راج کمار نے امیر ملکوں کی طرف سے ناکافی تعاون کا نقطہ اٹھایا تو نینسی لنڈ بورگ نے اس بات کو تسلیم کیا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس وقت کرونا بحران سے نمٹنے کے لیے اپنی توجہ داخلی امور پر مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحران ایک ایسا موقع ہے جب پالیسیوں کے ازسرنو ترتیب دینیے پر کام ہو سکتا ہے۔

عالمی بینک کے ڈائریکٹر آپریشنز، ایکسل وان ٹراٹسن برگ نے کہا کہ بینک اب تک چھ ممالک کے لئے امدادی پیکج کی منظوری دے چکا ہے اور مزید بیس ممالک کے لئے امدادی منصوبوں پر کام جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے اس بحران کو سامنے رکھتے ہوئے قرضوں کی واپسی میں چھوٹ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ بارہ سے پندرہ ماہ تک چلنے والے ابتدائی منصوبوں کے بعد بھی انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کو مسلسل امداد کی ضرورت پیش آئے گی، تاکہ وہ کرونا وبا سے متاثر ہونے والے لوگوں کے مسائل کو حل کر سکیں۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بین الاقوامی برادری کو کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے کہیں زیادہ سطح پر امداد کرنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور ایمرجنسی ریلیف کے انڈر سیکریٹری جنرل سر مارک لوکاک نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو انتہائی کم ترقی یافتہ ممالک کے مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی امداد کو کئی گناہ بڑھانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پندرہ سال کے بعد کرونا بحران کی وجہ سے ایسا پہلی بار ہوگا کہ بہت سے لوگ غربت کی لکیر کی طرف جائیں گے اور غربت میں اضافہ ہوگا۔ اقوام متحدہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ادارے نے دنیا سے سات ارب ڈالرز کی اپیل کی ہے، تاکہ کم ترقی یافتہ ممالک کو اس وبا کے اثرات سے مقابلہ کرنے کے قابل بنایا جائے۔

انہوں نے خاص طور پر دنیا کے امیر ترین ممالک سے کہا کہ اگر وہ اپنے آٹھ ٹریلین ڈالرز کے ریلیف پروگراموں کا صرف ایک فیصد حصہ، یعنی کے 90 ارب ڈالر کم ترقی یافتہ ممالک کی امداد کے لیے مختص کریں، تو اس وبا کے اثرات سے نمٹنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔

معاون سیکریٹری جنرل، سر مارک لوکاک نے کہا کہ دنیا کو اس وقت ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے، ایسے میں فراخدلی اور غیر معمولی امداد کے ذریعے ہی اس بحران سے پیدا ہونے والی مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG