یورپی یونین نے بدھ کے روز کہا ہے کہ 27 ملکوں کے اس گروپ کو اس سال کرونا وائرس کی وبا کے سبب شدید نوعیت کی کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
وائن لی نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ برسلز میں ایک نیوز کانفرنس میں یورپی یونین کی معیشت سے متعلق کمشنر، پاولاگرنتیلونی نے بتایا ہے کہ توقع یہ کی جا رہی ہے کہ 2021ء میں چھہ فیصد بحالی سے پہلے 2020ء میں یورپی معیشت سات اعشاریہ پانچ فیصد سکڑ جائے گی۔
یورپ ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں کرونا وائرس کے سبب معاشی بدحالی کی پیشگوئیاں اس وقت سے ہی کی جا رہی ہیں جب سے اس وائرس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ اور اس حوالے سے دنیا کے ہر خطے کے بارے میں جائزے پیش کئے جا رہے ہیں۔
تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ عالمی معیشت انفرادی ملکوں کی سطح پر بھی اور مجموعی طور پر بھی شدید مشکلات کا شکار ہونے والی ہے۔
عالمی بنک کے سابق عہدیدار اور مڈل ایسٹ انسٹیٹوٹ سے وابستہ ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین دنیا کی مجموعی معیشت کا اٹھارہ سے بیس فیصد بنتی ہے اور جب معیشت کا کوئی پانچواں حصہ اس قدر شدید کساد بازاری کی زد میں آجائے تو پھر دوسرے، خاص طور سے ترقی پذیر ملکوں کی معیشتوں کا کیا حال ہوگا؟
انہوں نے کہا کہ اگر اس میں امریکہ اور ایشیا (چین اور جاپان) وغیرہ کی معیشتوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ پوری دنیا کی مجموعی معیشت کا 80 فیصد بن جاتی ہے اور یورپی معیشتوں کے علاوہ ان دونوں (یعنی امریکہ اور ایشیا) کی معیشتوں میں بدحالی اور شرح نمو میں کمی بھی یقینی ہے جس کی واضح پیشگوئیاں کی جارہی ہیں اس لئے وہ نہیں سمجھتے کہ 2021ء میں معیشت کی بحالی کی جو توقع کی جارہی ہے وہ حقیقت پسندانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس وبا کی دوسری لہر بھی آگئی جس کی طبی ماہرین پیشگوئی کر رہے ہیں اور اس وقت تک کوئی موثر ویکسین یا دوا بھی مارکیٹ میں نہ آسکی تو پھر 2021ء تو کیا 2022ء تک بھی معاشی بحالی نہیں ہو پائے گی۔
برسلز میں مقیم پاکستانی صحافی خالد فاروقی نے بتایا کہ یورپ کی معاشی صورت حال بہت خراب ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک مرحلہ وار لاک ڈاؤن کھول رہے ہیں۔ پہلا مرحلہ شروع ہو چکا ہے جس کے بعد دوسرے، تیسرے اور چوتھے مرحلے تک جائیں گے جس کے دوران سیاحت اور فضائی سروسز کے شعبے بھی بحال کئے جائیں گے۔
لیکن، ہر چیز غیر یقینی ہے اور کوئی قطعیت کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آنے والا کل کیا لیکر آئے گا۔
خیال رہے کہ ابھی کرونا کی کسی موثر دوا یا ویکسین کا مرحلہ دور ہے اور اگر یہ چیزیں دریافت بھی ہو گئیں تو بڑے پیمانے پر ان کی تیاری، انکی قیمت اور غریب ملکوں کی ان تک پہنچ بدستور ایک بڑا مسئلہ بنا رہے گا۔