امریکہ کے محکمہٴ انصاف کا کہنا ہے کہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب میں روس کی مبینہ مداخلت سے متعلق سابق خصوصی تفتیشی افسر رابرٹ مُلر کی رپورٹ کا مکمل متن جمعرات کے روز جاری کر دیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے منگل کے روز ایک بیان میں اس بات کا اعادہ کیا کہ مُلر رپورٹ میں اُنہیں انتخاب میں کسی بھی طرح کی بے قاعدگیوں سے بری الذمہ قرار دے دیا گیا ہے۔ تاہم، صدر ٹرمپ سمیت تمام حلقے 22 ماہ تک جاری رہنے والی تفتیش کے بعد تیار کی گئی اس رپورٹ کے اجرا کے منتظر ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ایک بار پھر کہا ہے کہ کوئی سازش نہیں ہوئی اور نہ ہی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔
صدر ٹرمپ نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا کہ 2016 کے صدارتی انتخاب کے دوران مذکورہ جرائم کا ارتکاب اُن کی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کی اُمیدوار ہلری کلنٹن اور’’خراب پولیس والوں‘‘ نے کیا۔ ان ’’خراب پولیس والوں‘‘ سے اُن کی مراد قانون کا نفاذ کرنے والے سابق اعلیٰ افسران سے ہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ تفتیش کاروں کے خلاف چھان بین کی جائے۔
رابرٹ مُلر کی تفتیش کا محور دو باتوں پر تھا: اول یہ کہ کیا سابقہ صدارتی انتخاب کے دوران صدر ٹرمپ کے انتخابی عملے کے روس کے ساتھ رابطے تھے اور دوم کیا صدر منتخب ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔
اٹارنی جنرل ولیم بَر نے تین ہفتے قبل اس رپورٹ کا چار صفحوں پر مشتمل خلاصہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ اور اُن کے انتخابی عملے کی طرف سے صدارتی انتخاب جیتنے کیلئے روس سے کوئی ساز باز ثابت نہیں ہوئی۔
تاہم، یہ رپورٹ صدر ٹرمپ کی طرف سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے سوال پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔ اسلئے اٹارنی جنرل ولیم بَر اور نائب اٹارنی جنرل راڈ روزن سٹائن نے فیصلہ کیا کہ صدر ٹرمپ کے خلاف انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات عائد نہیں کئے جائیں گے۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ مُلر کی رپورٹ ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کرنے والے اُن 18 ارکان نے مرتب کی ہے جو، بقول ان کے، ’’مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور ہلری کلنٹن کے حامی ہیں‘‘۔
اُنہوں نے کہا کہ چونکہ اس رپورٹ میں مبینہ روسی مداخلت سے متعلق کوئی ساز باز ثابت نہیں ہو سکی۔ لہٰذا، اس رپورٹ میں توجہ اُن لوگوں پر دی جانی چاہیے تھی جنہوں نے اُن کی صدارتی مہم کی جاسوسی کی اور جنہوں نے روس سے متعلق یہ سازش گھڑی۔ اُنہوں نے سوال کیا کہ ’’یہ تفتیش کی ہی کیوں گئی؟ خراب پولیس والے، ڈیموکریٹس اور چال باز ہلری۔‘‘