بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس کے ایک اعلیٰ افسر اور تین دیگر اہلکاروں کے قتل کے بعد پولیس نے کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں کاروائیاں کی ہیں اور ایک کالعدم تنظیم کے تین مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے۔
پولیس حکام کے مطابق شہر کے نواحی علاقے عیسیٰ نگری میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر علاقے میں سرچ آپریشن کیا گیا تھا جس کے دوران بعض مسلح افراد نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی۔
پولیس حکام کے مطابق جوابی فائرنگ میں تینوں مبینہ دہشت گرد مارے گئے۔
دہشت گردوں کے ٹھکانے سے بھاری مقدار میں دھماکہ خیز مواد اور جدید اسلحہ بھی بر آمد کیا گیا ہے جبکہ لاشیں سول اسپتال کے مردہ خانے میں شناخت کے لیے منتقل کردی گئی ہیں۔
دریں اثنا صوبائی محکمۂ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں رواں سال اب تک تین اعلیٰ افسران سمیت پولیس کے دو درجن اہلکار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جب کہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق رواں سال کے دوران پہلا خودکش حملہ 12 مئی کو سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مو لانا عبدالغفور حیدری پر مستونگ میں ہوا تھا جس میں 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
دوسرا خودکش حملہ کوئٹہ میں 23 جون کو آئی جی کے دفتر کے سامنے ہوا جس میں 17 پولیس اہلکاروں سمیت 23 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
تیسرا خودکش حملہ 10 جولائی کو چمن میں ہوا جس میں ایس ایس پی ساجد خان مو مند سمیت دو افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوگئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق ٹارگٹ کلنگ کے ایک درجن سے زائد واقعات میں ڈی ایس پی عمر الرحمن ،اُن کا بھتیجا اے ایس آئی بلال شمس، ایس پی مبارک شاہ، ساحلی شہر گڈانی میں دو نیوی افسروں سمیت 20 سے زائد پولیس اہلکار، شیعہ ہزارہ کمیونٹی کے کئی لوگوں سمیت متعدد افراد ہلاک اور درجنو ں زخمی ہوچکے ہیں۔
حکام کے مطابق بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال کے جائزے کے لیے پاکستانی فوج کے سر براہ جنرل قمر جاوید باوجوہ ایک روزہ دورے پر جمعے کوئٹہ پہنچیں گے اور سیکورٹی کے بارے میں حکام سے بر یفنگ لیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ کوئٹہ سے اغوا کیے گئے ایک چینی جوڑے کی بازیابی کے لیے فوج کے خصوصی دستوں نے ضلع مستونگ میں آپریشن کیا تھا جس میں داعش کا نیٹ ورک قائم کرنے سے پہلے ہی ختم کرنے اور خودکش بمباروں سمیت 13 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
آپریشن سے قبل ہی چینی جوڑے کو قتل کرکے لاشیں پھینک دی گئی تھیں جو بعد میں سیکورٹی اداروں نے برآمد کر کے چین روانہ کردی تھیں۔
بظاہر صوبائی اور وفاقی حکومت صوبے میں داعش کی موجودگی کی تردید کرتی ہیں لیکن رواں سال کے دوران چینی جوڑے کو اغوا کرنے، تین خودکش حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات کی ذمہ داری داعش سے وابستہ تنظیمیں ہی قبول کر تی رہی ہیں۔