رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان: فورسز کی چوکی پر حملے میں تین اہلکار ہلاک، دو لاپتا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان سے متصل پاکستان کے علاقے شمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر مبینہ عسکریت پسندوں کے حملے میں تین اہل کار ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ مقامی حکام کے مطابق دو اہل کار لاپتا بھی ہیں۔

شمالی وزیرستان کی سول انتظامیہ اور پولیس عہدیداروں نے جمعرات کی صبح ایک بیان میں کہا ہے کہ عسکریت پسندوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جنوبی وزیرستان سے ملحقہ رزمک سب ڈویژن کی تحصیل گڑی یوم میں فورسز کی چوکی کو نشانہ بنایا۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے حملے کی تصدیق کی ہے۔

آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں واقعات میں چار فوجی ہلاک ہوئے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ جوابی کارروائی میں چھ عسکریت پسند بھی مارے گئے ہیں۔

فوری طور پر کسی فرد یا گروپ نے فورسز کی چوکی پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا ہےکہ لاپتا اہل کار کہاں ہیں۔

واضح رہے کہ شمالی وزیرستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے علاوہ حافظ گل بہادر کی شوریٰ مجاہدین بھی حکومت مخالف کارروائیوں میں مصروف ہے۔

حافظ گل بہادر اپنے وفادار جنگجوؤں کے ہمراہ جون 2014 کے وسط سے سرحد پار افغانستان میں روپوش ہے۔

افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی و جنوبی وزیرستان میں مبینہ عسکریت پسندوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم اور جھڑپیں تواتر سے ہوتی رہتی ہیں۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کے جاری کردہ بیان کے مطابق 16 اکتوبر کو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دو مختلف علاقوں میں فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں دو اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔

آئی ایس پی آر نے 14 اکتوبر کو ایک بیان میں فورسز کی ایک کارروائی میں چھ مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت اور آٹھ کے زخمی ہونے کا دعوی کیا تھا۔

پاکستان پڑوسی ملک افغانستان پر الزام عائدکرتا رہا ہے کہ دہشت گرد سیکیورٹی فورسز پر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں تاہم طالبان کی افغان حکومت ان الزمات کو مسترد کرتی رہتی ہے۔

ستمبر کے اوائل میں افغانستان کے لیے پاکستان کے خصوصی نمائندے آصف درانی کے دورۂ کابل کے بعد طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی سے منسلک جنگجوؤں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں کمی آئی تھی۔

پاکستانی حکام حالیہ واقعات کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو مورد الزام ٹھہرارہے ہیں۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز نے رواں برس اگست میں دہشت گردی کے واقعات کے اعداد و شمار جاری کیے تھے۔ جس کے مطابق جولائی 2023 کے مقابلے میں اگست میں دہشت گردی کے واقعات میں 93 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

رواں برس جولائی میں دہشت گرد حملوں کے 54 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جب کہ اگست میں یہ تعداد بڑھ کر 99 ہوگئی تھی۔ ان حملوں میں 112 افراد مارے گئے جن میں سے 56 سیکیورٹی اہل کار تھے۔

نومبر 2014 کے بعد پہلی بار کسی ایک ماہ میں اتنے زیادہ حملے ہوئے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے اگست میں 147 حملے کرنے کا دعوٰی کیا تھا تاہم اس کے بیشتر دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

دوسری جانب پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے بھی کئی ممکنہ حملوں کو ناکام بنایا جس کے دوران 24 مشتبہ دہشت گرد ہلاک اور 69 کو گرفتار کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں کل 22 خود کش حملے ہو ئے ہیں جن میں 227 افراد مارے گئے جب کہ 497 زخمی ہوئے۔دہشت گردی کے سب سے زیادہ واقعات سابقہ فاٹا کے اضلاع اور بلوچستان میں ہوئے جب کہ خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع بھی متاثر ہوئے۔

فورم

XS
SM
MD
LG