|
نئی دہلی — بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر سنبھل میں واقع شاہی جامع مسجد کے سروے کے موقعے پر اتوار کو تشدد برپا ہو گیا جس کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک اورمتعدد زخمی ہو گئے۔
مرادآباد کے کمشنر اننیا کمار کے مطابق ہلاک ہونے والوں کے نام نعمان، بلال اور نعیم ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ واقعے میں سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) اور دیگر اعلیٰ عہدے داروں سمیت 20 سے 22 پولیس اہل کار زخمی ہوئے ہیں جب کہ 15 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
مقامی عدالت میں داخل ایک عذرداری میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ شاہی جامع مسجد ہری ہر کا مندر تھا جسے مغل حکمراں بابر نے 1529 میں منہدم کرکے اس کی جگہ پر مسجد کی تعمیر کرائی تھی۔ قبل ازیں عدالت کی جانب سے مقرر کردہ سروے کمشنر نے 19 نومبر کو پہلا سروے کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ کے ایک وفد نے مقامی عدالت کے حکم پر صبح ساڑھے سات بجے پہنچ کر سروے کرنا شروع کیا۔ اس دوران وہاں سینکڑوں افراد جمع ہو گئے۔ وہ سروے کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔
اسی دوران پتھراو ہونے لگا اور بتایا جاتا ہے کہ بعض افراد نے کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔ سروے ٹیم کے ساتھ بڑی تعداد میں پولیس اہل کار تھے۔
پولیس نے احتجاجیوں کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور اشک آور گیس کے شیل داغے۔
نشریاتی ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ کے مطابق ایسا الزام لگایا جاتا ہے کہ گولی لگنے سے ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی ہلاکتوں کی اصل وجہ معلوم ہو سکے گی۔
رپورٹ کے مطابق سروے کی خبر پھیلتے ہی لوگ مسجد کے پاس جمع ہونا شروع ہو گئے۔
امام نے مسجد کے اندر سے اعلان کرتے ہوئے مظاہرین سے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جانے کے لیے کہا لیکن مظاہرین نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ سنبھل اتر پردیش کے ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
اترپردیش کے پولیس سربراہ پرشانت کشور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے حکم پر مسجد کا سروے کیا جا رہا تھا اور کچھ غیر سماجی عناصر نے پتھراؤ کیا۔ موقع پر پولیس اور سینئر اہل کار موجود تھے۔ صورت حال قابو میں ہے۔ پولیس پتھر بازوں کا پتہ لگائے گی اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
سب انسپکٹر وکاس نروال نے جو کہ اس وقت موقع پر موجود تھے انڈیا ٹوڈے کو بتایا کہ مظاہرین کی تعداد کم از کم 300 تھی۔ بھیڑ نے پولیس اور اس کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔
رپورٹس کے مطابق تشدد کے باوجود سروے کمشنر نے اپنا سروے مکمل کیا۔ سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ راجندر پینسیا کے مطابق اس پورے عمل کی ویڈیو گرافی کی گئی ہے۔ سروے کمشنر 29 نومبر کو اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں گے۔
سپریم کورٹ کے ایک وکیل وشنو شنکر جین نے مقامی عدالت میں 19 نومبر کو ایک درخواست داخل کرکے دعویٰ کیا کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے مقام پر ایک مندر تھا جسے بابر نے توڑ کر مسجد تعمیر کی تھی۔
عدالت نے اسی روز تین گھنٹے کی سماعت کے بعد مسجد کے سروے کا حکم دیا۔ اس حکم پر اسی روز عمل کرتے ہوئے جامع مسجد کا سروے کیا گیا۔ اس پر بعض سیاست دانوں اور ماہرینِ قانون نے سوال اٹھایا اور اسے غیر ضروری عجلت قرار دیا ہے۔
وشنو شنکر جین اور ان کے والد ہری شنکر جین وارانسی کی گیان واپی مسجد کے مندر ہونے سے متعلق مقدمے میں بھی ہندو فریق کی پیروی کر رہے ہیں۔ وہ بعض دیگر مسجدوں کے بارے میں مندر ہونے کے دعوے سے متعلق مقدمات میں بھی ہندو فریقوں کے وکیل ہیں۔
قبل ازیں سنبھل سے تعلق رکھنے والے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق نے جامع مسجد کے سروے پر اعتراض کیا۔
انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسجد کے مندر ہونے کے دعوے کی تردید کی اور کہا کہ سینکڑوں سال سے یہ مسجد ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
انھوں نے 1991 کے عبادت گاہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب اس قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی وہ اسی شکل میں رہے گی۔
ان کے بقول اس قانون کو تبدیل نہیں کیا جا سکے گا تو پھر مسجد کا سروے کیوں کیا جا رہا ہے۔
سماجوادی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا کہ حکمراں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) نے پولیس انتظامیہ اور حکومت کے ساتھ مل کر سنبھل تشدد کرایا تاکہ ریاست میں ضمنی انتخابات میں ہونے والی بدعنوانی سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
گزشتہ دنوں اترپردیش کے نو اسمبلی حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوئے تھے جن میں 23 نومبر کو اعلان کیے جانے والے نتائج کے مطابق بی جے پی نے سات اور سماجوادی پارٹی نے دو پر کامیابی حاصل کی ہے۔
اکھلیش یادو نے کہا کہ جب ایک بار سروے ہو چکا تھا تو دوبارہ اور وہ بھی اتنی صبح ایک اور سروے کرانے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کے بقول میں اس معاملے کے قانونی پہلو پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ لیکن یہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا گیا تاکہ لوگوں کے جذبات بھڑکیں ۔ اس معاملے میں دوسرے فریق کو نہیں سنا گیا۔
سماجوادی پارٹی کے ترجمان عمیق جامعی نے بی جے پی پر مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی سیاست کرنے کا الزام لگایا۔
کانگریس کے سابق رکن پارلیمان ادت راج نے کہا کہ یہ سلسلہ بہت خطرناک ہے۔ اسے اب بند ہونا چاہیے۔
بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے سنبھل میں سروے کے دوران پتھراو کی مذمت کی۔ تاہم انھوں نے تشدد کے لیے ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
ان کے مطابق ضمنی انتخابات کے غیر متوقع نتائج آنے کے بعد پورے مرادآباد ڈویژن بالخصوص سنبھل میں کشیدگی ہے۔ انھوں نے سروے کے لیے عجلت پر بھی سوال اٹھایا۔
واضح رہے کہ سنبھل پارلیمانی حلقے میں آنے والے کندرکی اسمبلی حلقے میں 30 سال کے بعد بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ اس حلقے میں مسلم آبادی 65 فیصد ہے۔ یہاں واحد غیر مسلم امیدوار بی جے پی کے رام ویر ٹھاکر تھے۔ جب کہ ان کے مقاملے میں 11 مسلم امیدوار تھے۔
پولنگ کے روز مسلمانوں کی جانب سے عام طور پر شکایت کی گئی کہ ان کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا تھا۔
ادھر اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ کا کہنا ہے کہ عدالت کے حکم پر کیے جانے والے سروے میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
انھوں نے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کے حکم پر عمل کرنا حکومت اور پولیس کی ڈیوٹی ہے اور جو لوگ میں اس میں رخنہ اندازی کریں گے ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔
یاد رہے کہ 1976 میں کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں مسجد میں داخل ہو کر پوجا کی تھی۔ جب آہٹ پا کر مسجد کے امام بیدار ہوئے تو ان لوگوں نے ان پر حملہ کیا اور انھیں ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد وہاں ایک بڑا فساد برپا ہوا تھا۔
سنبھل کی شاہی مسجد سے لگ بھگ 200 میٹر کے فاصلے پر معروف ’کلکی مندر‘ موجود ہے۔