رسائی کے لنکس

بھارت: 'گوشت والی بریانی' لانے پر طالبِ علم کو اسکول سے نکالنے پر تنازع


  • پرنسپل کی اس کارروائی پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
  • انتظامیہ نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اور اسے تین روز میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔
  • پرنسپل کے مطابق بچے نے نان ویج لانے کا اعتراف کیا ہے جب کہ بچے کی والدہ اس کی تردید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ویج بریانی تھی۔
  • ہندوؤں کی اکثریت ہندی مہینے ساون میں گوشت سے پرہیز کرتی ہے۔ اس مہینے میں ملک کی مختلف ریاستوں میں گوشت کی دکانوں کو بند کرنے کا سرکاری حکم جاری کیا جاتا ہے۔

نئی دہلی -- بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر امروہہ میں ایک معروف نجی اسکول کے پرنسپل نے کھانے میں مبینہ طور پر نان ویج بریانی لانے پر نرسری کلاس کے ایک سات سالہ طالب علم کو اسکول سے نکال دیا۔ اس واقعے پر ایک بڑا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

پرنسپل کی اس کارروائی پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔

انتظامیہ نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اور اسے تین روز میں رپورٹ دینے کی ہدایت کی ہے۔

اس تنازع سے متعلق ایک ویڈیو میڈیا میں وائرل ہے جس میں اسکول کے اندر پرنسپل اور بچے کی والدہ کے درمیان تلخ کلامی ہو رہی ہے۔ ویڈیو میں پرنسپل یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں کہ "ہم ایسے بچوں کو نہیں پڑھا سکتے جو اسکول میں نان ویج کھانا لائیں اور بڑے ہو کر مندر توڑیں۔"

یاد رہے کہ وہ بچہ جس کا نام ریحان ہے دو سال سے اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ اس کے دو بھائی اور وہاں کے طالب علم ہیں۔

پرنسپل کے مطابق بچے نے نان ویج لانے کا اعتراف کیا ہے جب کہ بچے کی والدہ اس کی تردید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ویج بریانی تھی۔

ہلٹن کانوینٹ اسکول کے پرنسپل اونیش کمار شرما نے طالب علم پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ دوسرے بچوں سے کہتا ہے کہ وہ انھیں نان ویج کھلا کر مسلمان بنا دے گا۔

بچے کی والدہ کا کہنا ہے کہ ایک سات سال کا بچہ اس قسم کی باتیں کیسے کہہ سکتا ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ کلاس کے بچے ہمیشہ ہندو مسلم کرتے رہتے ہیں۔

بچے کی والدہ کا الزام ہے کہ پرنسپل نے بچے کو گھنٹوں ایک کمرے میں بند کر رکھا تھا۔ پرنسپل نے اس الزام کی تردید کی۔ تاہم میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بدھ کو بچے کو پورے دن ایک الگ کمرے میں بٹھائے رکھا گیا۔

پرنسپل کے مطابق بچوں کے والدین کے ساتھ ہونے والی ’پیرنٹس ٹیچرز میٹنگ‘ (پی ٹی ایم) میں والدین نے بچے کے بارے میں سنگین شکایات درج کرائی تھیں جس پر مذکورہ بچے کے والدین کو اسکول بلایا گیا تھا۔ بچے کی والدہ کے سوال پر پرنسپل نے پولیس بلانے کی دھمکی دی۔

واضح رہے کہ بھارت میں غیر مسلموں کا ایک بڑا طبقہ گوشت سے پرہیز کرتا ہے، وہ سبزی خور ہے۔ اسی لیے متعدد اسکولوں کی انتظامیہ نے دوسروں کے مذہبی جذبات کا خیال کرتے ہوئے اپنے یہاں طلبہ کے کھانے میں گوشت لے جانے پر پابندی عاید کر رکھی ہے۔

مذکورہ پرنسپل نے نشریاتی ادارے ’زی نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسکول کی گائیڈ لائن میں لکھا ہوا ہے کہ اسکول میں گوشت کا کھانا لانا ممنوع ہے۔

خیال رہے کہ اسی سال اگست کے شروع میں دہلی سے متصل نوئڈا کے ایک نجی اسکول نے ایک سرکلر جاری کرکے والدین سے درخواست کی تھی کہ وہ بچوں کے ٹفن میں نان ویج نہ بھیجیں۔

اسکول کی جانب سے اس کی دو وجوہات بتائی گئی تھیں۔ ایک صفائی ستھرائی اور دوسرے دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا۔

اس سرکلر پر بھی ایک تنازع پیدا ہوا تھا۔ کچھ والدین نے اس کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ایسا فیصلہ نان ویج سے پرہیز کرنے والوں کے جذبات کے احترام میں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ہندوؤں کی ایک بڑی اکثریت ہندی مہینے ساون میں گوشت سے پرہیز کرتی ہے۔ اس مہینے میں ملک کی مختلف ریاستوں میں گوشت کی دکانوں کو بند کرنے کا سرکاری حکم جاری کیا جاتا ہے۔

پرنسپل کے رویے پر تنقید

انسانی حقوق کے کارکنوں نے پرنسپل کے رویے پر تنقید کی ہے اور سوال کیا ہے کہ کیا اسکول میں نان ویج بریانی لے جانے پر پابندی ہے۔ کیا حکومت یا محکمہ تعلیم نے اس سلسلے میں کوئی قانون بنایا ہے۔ اگر نہیں تو پھر پرنسپل نان ویج لے جانے پر ایک طالب علم کو اسکول سے کیسے نکال سکتے ہیں۔

انسانی حقوق کی سرگرم کارکن شیبہ اسلم فہمی نے اس قسم کے واقعات میں ویڈیو ریکارڈنگ پر سوال اٹھایا اور کہا کہ جان بوجھ کر ویڈیو ریکارڈ کروائی جاتی اور پھر اسے وائرل کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ بقول ان کے حکمراں سیاسی جماعت سے وابستہ لوگوں کو اس قسم کی چیزیں راس آتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے شبہ ظاہر کیا کہ مذکورہ پرنسپل کا تعلق کسی ہندو تنظیم سے ہو سکتا ہے۔

ان کے مطابق سیاسی مفاد پرستی کے مقصد سے ملک میں نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں ان کا قتل کیا جاتا ہے۔

وہ اسے ووٹ بینک کا حصہ مانتی ہیں۔ ان کے خیال میں بعض ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں جس کی وجہ سے اس قسم کی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق اس قسم کے واقعات کا تعلق سیاسی ایجنڈے سے ہے۔ مذکورہ پرنسپل اپنے اس اقدام سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ "دیکھو ہم بھی اسی طرح نفرت پھیلا سکتے ہیں جس طرح دوسرے پھیلا رہے ہیں۔" یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات میں ملوث افراد کے خلاف کارراوئی نہیں کی جاتی بلکہ ان کو انعام دیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ حکمراں جماعت کے رہنماؤں کی جانب سے سیاسی مقاصد سے ایسے اقدامات کروائے جانے کے الزام کی تردید کی جاتی ہے۔

اس سوال پر کہ اس قسم کے واقعات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ شیبہ اسلم فہمی کہتی ہیں کہ جس روز ہندو معاشرہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہو گا۔ اپنے ارکان پارلیمان و ارکان اسمبلی کے سامنے ڈٹ جالے گا۔ وہ سیاسی نمائندوں کے دفاتر کے باہر احتجاج کرے گا اس دن یہ سلسلہ رک جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں ہریانہ میں ایک مسلم مزدور کو بیف کھانے کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ جب کہ مہاراشٹر میں ایک 72 سال مسلم بزرگ پر بیف رکھنے کے الزام میں حملہ کر کے بری طرح زخمی کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے ان واقعات کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔

امروہہ کے مسلمانوں کی ایک تنظیم ’امروہہ مسلم کمیٹی‘ نے اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا اور پرنسپل کے اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

کمیٹی کی ایمرجنسی میٹنگ کے بعد اس کے صدر خورشید انور نے مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان کے نام میمورنڈم بھیج کر پرنسپل کے رویے پر ناراضی ظاہر کی اور اس حساس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ان کے مطابق پرنسپل نے ملک کی مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا ہے لہٰذا ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔

رپورٹس کے مطابق امروہہ کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) سدھیر کمار نے کہا کہ ضلع انسپکٹر آف پولیس نے معاملے کی تحقیقات کے لیے تین رکنی کمیٹی تشکیل کی ہے۔ اس کی رپورٹ کی بنیاد پر مناسب کارروائی کی جائے گی۔

نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا چینلوں پر بھی اس واقعے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اسکول میں نان ویج کھانا لے جانے پر اسکول سے طالب علم کے اخراج پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال اگست میں اترپردیش کے مظفر نگر میں ایک نجی اسکول کی ایک خاتون ٹیچر نے ایک مسلم طالب علم کو اس کے ساتھیوں سے تھپڑ لگوائے تھے جس پر زبردست تنازع پیدا ہوا تھا۔

اس معاملے پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی تھی اور ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے ان کے خلاف کارروائی کی گئی تھی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG