تھائی لینڈ کے ایک سیاحتی جزیرے پر دس ماہ قبل دو برطانوی سیاحوں کے مقدمہ قتل میں بدھ کو استغاثہ نے اپنے پہلے گواہ کو پیش کیا۔
میانمار سے تعلق رکھنے والے دو تارکین وطن لڑکوں کو گرفتار کر کے ان پر سیاحوں کے قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
اس مقدمے کو تھائی لینڈ کے نظام انصاف اور دوسرے ملکوں سے آ کر یہاں کام کرنے والوں سے سلوک کے متعلق ایک آزمائش قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ان لڑکوں کا کہنا ہے کہ ان سے مبینہ طور تشدد کے ذریعے اعتراف جرم کروایا گیا۔
24 سالہ ڈیوڈ ملر اور 23 سالہ ہنا ودرج کی لاشیں گزشتہ سال 15 ستمبر کو تھائی لینڈ کی خلیج میں واقع کوہ تاؤ کے ساحل سے ملی تھیں۔
طبی تجزیے سے پتا چلا تھا کہ ان دونوں کو سر بری طرح زخمی تھے جب ہنا کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
ان دونوں برطانوی سیاحوں کی ملاقات تھائی لینڈ میں ہوئی تھی اور یہ ایک ہی ہوٹل میں قیام پذیر تھے۔
استغاثہ نے جائے وقوع پر سب سے پہلے پہنچنے والے پولیس افسر جاراپن کائیوکاؤ کو بطور گواہ پیش کیا جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ انھیں صبح ساڑھے بجے کال موصول ہوئی کہ ساحل پر دو سیاحوں کی لاشیں ملی ہیں۔
"میں نے دیکھا کہ ایک مرد کی لاش پڑی ہے اور اس کے جسم پر جرسی لپٹی ہوئی ہے۔ پھر میں نے خاتون کی لاش چٹانوں کے پیچھے پڑی دیکھی۔ وہاں پتھروں پر خون کے دھبے تھے۔ یہ دونوں لاشیں کئی میٹر کے فاصلے پر پڑی تھیں اور یہ زیادہ تر عریاں ہی تھے۔ ہنا کی لاش پر جسمانی تشدد کے نشان بھی موجود تھے۔"
کوہ تاؤ کے قریب واقع کوہ ساموئی کی عدالت میں ہونے والی کارروائی کے دوران دونوں ملزمان بھی کمرے میں موجود تھے۔
ملزمان میں ون زا ہٹن اور زا لن شامل ہیں، ان دونوں کی عمریں 22 سال ہیں۔ انھیں گزشتہ سال اکتوبر میں گرفتار کیا تھا۔ انھوں نے پہلے تو اعتراف جرم کیا لیکن بعد میں اپنے بیان سے منحرف ہو گئے۔
ان لڑکوں کا موقف ہے کہ انھیں مبینہ طور پر تشدد کر کے اور دھمکیاں دے کر جرم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں ان تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہیں کہ شاید ان لڑکوں کو "قربانی کا بکرا" بنایا جا رہا ہے لہذا معاملے کی آزادانہ طور پر تحقیقات کی جانی چاہیئں۔
گرفتار کیے گئے نوجوانوں پر قتل کے علاوہ تھائی لینڈ میں غیر قانونی طور پر کام کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ استغاثہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس دونوں کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں جس میں جینیاتی تجزیہ "ڈی این اے" بھی شامل ہے۔
صحافیوں کو پہلے چھوٹے سے کمرہ عدالت میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن پھر انھیں یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ مقتولین کے رشتے داروں، سفارتکاروں اور اس مقدمے سے متعلق دیگر افراد کے لیے جگہہ خالی کی جا رہی ہے۔
وکیل دفاع ناکھون چومپوچاٹ کا کہنا ہے کہ "ہمیں امید ہے کہ سچ سامنے آئے گا۔"