نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرمائی صدر مقام جموں کے ایک بڑے فوجی ٹھکانے پر مسلح تصادم اتوار کو دوسرے دن بھی جاری رہا۔ شہر کے سنجوان علاقے میں واقع فوجی ٹھکانے میں محصور عسکریت پسندوں اور بھارتی مسلح افواج کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سےجاری ہے اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تصادم کے دوران مزید تین فوجی اور ایک شہری ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ ایک اور عسکریت پسند بھی مارا گیا ہے۔
اس طرح ہفتے کی صبح شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک دس افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں ایک صوبیدار سمیت بھارتی فوج کے پانچ سپاہی، ایک شہری اور چار عسکریت پسند شامل ہیں۔ ایک میجر سمیت نصف درجن فوجی اور ان کے اہلِ خانہ زخمی ہوئے ہیں- شدید طور پر زخمی ہونے والی ایک 35 سالہ خاتون نے اتوار کو ایک بڑے آپریشن کے بعد ایک تندرست بچی کو جنم دیا جسے ڈاکڑ معجزے سے کم قرار نہیں دے رہے ہیں ۔
مُشتبہ عسکریت پسندوں نے سنیچر کو مقامی وقت کے مطابق صبح تقریبا" چار بجے سنجوان میں بھارتی فوج کے 36 بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول کر عقبی راستے سے اندر گھسنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی
بھارتی فوج ، نیم فوجی دستوں اور مقامی پولیس کے شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لیکر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی ۔ بعد میں بھارتی فضائیہ کے پیرا کمانڈوز کو ادھمپور سے جہاں بھارتی فوج کی شمالی کمان کے صدر دفاتر واقع ہیں اور بھارتی ریاست ہریانہ کے سرسوا علاقے سے ہوائی جہازوں کے ذریعے جموں لایا گیا۔ جب سے وہ دوسرے حفاظتی دستوں کے ساتھ ملکر عسکریت پسندوں پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں-
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق عسکری تنظیم جیشِ محمد سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں سراغرساں ذرائع سے پہلے ہی یہ اطلاع ملی تھی کہ جیشِ محمد کشمیر محمد افضل گورو کی برسی پر کوئی بڑی کارروائی کرنے والی ہے جس کے پیشِ نظر وادئ کشمیر میں جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور جیشِ محمد سمیت کئی عسکری تنظیمیں فعال ہیں، ریڈ الرٹ جاری کیا گیا تھا۔ لیکن جموں چونکہ ایک پُر امن علاقہ ہے، انہیں وہاں عسکریت پسندوں کی طرف سے فوجی ٹھکانے کو ہدف بنانے کا بالکل خدشہ نہیں تھا- اس سلسلے میں جیشِ محمد کی طرف سے تا حال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
افضل گورو کو ایک بھارتی عدالت کی طرف سے نئی دہلی میں پارلیمان پر سولہ برس پہلے ہوئے دہشت گرد حملے میں مجرم قرار دئے جانے کے بعد 9 فروری 2013 کو دِلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔
حملے سے پیدا شدہ صورتِ حال کا جائزہ لینے کیلئے بھارتی بّری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت جموں پہنچ گئے ہیں۔ بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی یا این آئی اے کے دس ممبران کی ایک ٹیم بھی نئی دہلی سے جموں آگئی ہے۔
اس دوران اتوار کو کشمیری قوم پرست لیڈر محمد مقبول بٹ کی برسی پر وادئ کشمیر اور جموں کے بعض حصوں میں ایک عام ہڑتال کی گئی جبکہ حفاظتی دستوں نے دارالحکومت سرینگر کے حساس علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائد کیں۔
حفاظتی دستوں نے جموں کشمیر لیبریشن فرنٹ کے کارکنوں کی طرف سے سرینگر میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے دفتر تک مارچ کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔
اس دوران جنوبی ضلع شوپیان میں مظاہرین پر حفاظتی دستوں کی فائرنگ میں ایک نوجوان زخمی ہوگیا –
مقبول بٹ کو بھی تہاڑ جیل میں 11 فروری 1984 کو تختہء دار پر لٹکایا گیا تھا۔ ان پر 1960 کی دہائی کے دوران کشمیر میں ایک بھارتی انٹیلیجنس افسر امر چند کو قتل کرنے کا الزام تھا۔