رسائی کے لنکس

حکومت اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے، کیا فواد چوہدری اور اعظم سواتی کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے؟


وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اور وزیرِ ریلوے اعظم سواتی نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں ای سی پی پر الزامات لگائے تھے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری اور وزیرِ ریلوے اعظم سواتی نے گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں ای سی پی پر الزامات لگائے تھے۔

پاکستان میں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے درمیان تنازعہ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حکومتی وزرا کے بیانات کے بعد الیکشن کمیشن نے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری اور وزیرِ ریلوے اعظم سواتی کو نوٹسز جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے وزیر ریلوے اعظم سواتی کی جانب سے الیکشن کمیشن پر پیسے لینے کے الزام پر ان سے ثبوت مانگنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پیمرا سے بھی ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ جو بھی بات کرتے ہیں وہ کابینہ کا بیان ہوتا ہے۔ ان کے بقول، الیکشن کمیشن اپوزیشن کا آلہ کار ہے اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سے ان کا قریبی تعلق ہے۔ یہ سب کابینہ کا خیال ہے۔

اعظم سواتی الزامات کے ثبوت دیں: ای سی پی

الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں اجلاس میں الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر لگائے گئے الزامات کو زیرِ بحث لایا گیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن ان الزامات کی تردید کرکے انہیں مسترد کرتا ہے۔

اجلاس میں ایوانِ صدر اور قائمہ کمیٹی اجلاس میں پیش آنے والے واقعات پر بریفنگ بھی دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق الیکشن کمیشن نے وزیر ریلوے اعظم سواتی کی طرف سے ای سی پی پر جو الزامات لگائے گئے ہیں ان کے ثبوت مانگنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایس سی پی کے مطابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کی جانب سے ایک پریس بریفنگ کے دوران الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر لگائے گئے الزامات پر انہیں اور اعظم سواتی کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاکہ مزید کارروائی کی جا سکے۔

اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پیمرا) سے بھی وفاقی وزا کے بیانات کا ریکارڈ طلب کیا ہے۔ جسے دیکھ کر مزید کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

وفاقی وزرا نے کیا کہا تھا؟

الیکشن کمیشن اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے درمیان تنازعات نئے نہیں۔ ماضی میں بھی دونوں ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے رہے ہیں۔​ لیکن حالیہ بیانات کا سلسلہ ​ دس ستمبر کو اس وقت شروع ہوا جب وزیرِ ریلوے اعظم سواتی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے معاملے پر کمیشن حکام کی موجودگی میں الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن نے ان کے بقول 'پیسے پکڑے ہوئے ہیںِ‘۔

ان الزامات کے بعد الیکشن کمیشن کے اراکین اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے اور بعد میں چیئرمین کمیٹی تاج حیدر کی طرف سے اجلاس میں ایک رکن کو آن لائن نہ لینے پر حکومت نے بھی اجلاس کا بائیکاٹ کردیا، تاہم کمیٹی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے متعلق قانون سازی کو مسترد کردیا۔

مذکورہ اجلاس کے بعد فواد چوہدری نے اعظم سواتی کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس کی۔ جس میں انہوں نے کہا کہ ''ایسا لگتا ہے الیکشن کمیشن اپوزیشن کا ہیڈکوارٹرز بن گیا ہے۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو براہ راست کہا کہ اگر انہیں سیاست کرنی ہے تو استعفیٰ دے کر عہدہ چھوڑیں اور الیکشن لڑیں، چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے ماؤتھ پیس بن گئے ہیں، وہ نواز شریف سے قریبی رابطے میں رہے ہیں۔''

حکومت کا مؤقف

الیکشن کمیشن کے بارے میں حکومتی مؤقف میں سختی کی ایک وجہ الیکٹرانک ووٹنگ میشن (ای وی ایم) ہے جس پر الیکشن کمیشن نے اعتراضات عائد کردیے ہیں۔

10 ستمبر کو ہونے والے اجلاس سے قبل بھی الیکشن کمیشن نے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین کے نام ایک خط میں اپنے اعتراضات اور تحفظات بھجوائے تھے اور کہا تھا کہ آئندہ الیکشن میں ای وی ایم کا استعمال ممکن نہیں ہے۔ اس پر حکومت کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اعظم سواتی نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور اور ایوانِ صدر میں اس بارے میں سخت زبان استعمال کی ۔

وزرا کی طرف سے الیکشن کمیشن کو اپوزیشن کا مرکز قرار دیا جارہا ہے تاہم وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن 'اے آر وائی' نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کو جن معاملات پر ادارہ جاتی سطح پر بات کرنی چاہیے تھی وہ انہیں میڈیا میں لے گیا جس کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ای وی ایم پر اعتراضات حکومت کو بھجوانے کے بجائے میڈیا پر پریس ریلیز جاری کی گئی، اسی طرح قائمہ کمیٹی میں جانے سے قبل 37 اعتراضات کی ایک فہرست حکومت کے بجائے میڈیا کو ریلیز کی گئی، اگر میڈیا پر آپ نے مقابلہ کرنا ہے تو آپ کی باتوں کا جواب میڈیا پر آ کر ہی دیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کو جاری کردہ نوٹس کی قانونی حیثیت بھی دیکھنی ہوگی کیوں کہ ابھی الیکشن کمیشن کا کورم مکمل نہیں ہے، اس کے دو ارکان کی تعیناتی ہونی ہے اور دو ارکان کی غیر موجودگی میں ہونے والے اجلاس اور جاری نوٹسز کی قانونی حیثیت دیکھنا ہوگی۔

ان کے بقول، اگر یہ پریس ریلیز جاری نہ ہوتی تو بہتر ہوتا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ اس وقت الیکشن کمیشن اپوزیشن کا آلہ کار ہے اور اس کا نوازشریف سے تعلق ہے۔ کمیشن کو سیاست نہیں کرنی چاہیے اور یہ سب خیالات کابینہ کے ہیں۔ اگر انہیں خود کو سیاست سے بچانا ہے تو اپنا کنڈکٹ درست کرنا ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا سائٹس پر جب بیان دیے جائیں گے تو اس کا ردِ عمل تو آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو الزامات الیکشن کمیشن پر لگے ان کا پس منظر ہے کہ لگاتار کمیشن کی طرف سے سیاسی بیانات جاری کیے گئے، اگر ایسا کیا جائے گا تو سیاسی ردِعمل تو آئے گا۔

چیف الیکشن کمشنر کو کیسے ہٹایا جا سکتا ہے؟

چیف الیشکن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو ہٹانے کے لیے حکومت کے پاس آپشنز موجود ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر کو ہٹانے کا آئینی طریقہ ان کے خلاف سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرنا ہے۔ یہ ریفرنس حکومت کی ہدایت پر صدرِ پاکستان کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوایا جاتا ہے جہاں کونسل کے اراکین ججز چیف الیکشن کمشنر پر لگائے گئے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔

دوسری صورت ان کے خود سے استعفیٰ دینے کی ہے اور موجودہ حالات میں وہ کسی صورت استعفیٰ دیتے نظر نہیں آ رہے بلکہ حکومت کے ہر اقدام کے جواب میں سخت اقدام کر کے جواب دے رہے ہیں۔

سکندر سلطان راجہ ایک سینئر بیوروکریٹ ہیں اور اس سے قبل وہ ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹ اینڈ امیگریشن، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری، سیکریٹری پیٹرولیم اور سیکریٹری ریلوے بھی رہ چکے ہیں۔

جنوری 2020 میں وزیرِ اعظم عمران خان نے انہیں چیف الیکشن کمشنر تعینات کیا تھا۔ لیکن ای وی ایم اور ضمنی انتخابات میں دیے جانے والے بعض فیصلوں کی وجہ سے حکومت ان سے سخت نالاں ہے اور ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

وزرا کو توہین عدالت کے نوٹس سے کیا ہو سکتا ہے؟

علاوہ ازیں آئین میں درج اختیارات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک جج کے برابر ہوتے ہیں۔ اور ان پر جھوٹے الزامات لگانے، انہیں متنازع بنانے پر ان کے خلاف بات کرنے والے وزرا کو طلب کر کے توہین عدالت کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اگر ان نوٹسز کے جواب میں وہ اپنے لگائے گئے الزامات کے بارے میں ثبوت فراہم نہ کرسکے اور توہین عدالت ثابت ہوگئی تو انہیں پانچ سال تک کے لیے نا اہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کے اختیارات آئین میں دیے گئے ہیں اور ان کے پاس ادارے یا ان پر الزام لگانے والے افراد کے خلاف توہین عدالت کا اختیار موجود ہے۔ اب الیکشن کمیشن نے اس معاملے میں کارروائی شروع کردی ہے اور ریکارڈ آنے کے بعد اس بارے میں باضابطہ کارروائی ہوسکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG