ملک کی ستر سے زائد سرکاری یونیورسٹیوں کے بجٹ میں کٹوتی اور ملک کے شمالی مغربی علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد پر جان لیوا حملوں اور اُن کے اغواء پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منگل کو پاکستان کی سرکاری جامعات کے پروفیسروں نے احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ وعدے کے مطابق یونیورسٹیوں کو فوری طور پر اضافی رقوم فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات کرے۔
اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر منگل کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں بھی ایک ریلی نکالی گئی جس میں شریک پروفیسر رضیہ سلطانہ اور گلزیزاختر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے بجٹ میں کٹوتی کے باعث یونیورسٹیوں میں تحقیق کا کام متاثر ہوا ہے جب کہ حکومت کی طرف سے بجٹ میں اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے کے اعلان کے باوجود کئی یونیورسٹیوں کو اب تک اضافی رقوم فراہم نہیں کی گئی ہیں ۔
تاہم ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ایک عہدیدار عائشہ اکرام کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت نے وعدے کے مطابق 1.68 ارب روپے کی پہلی قسط جاری کر دی ہے اور آئندہ ہفتے یہ پیسہ یونیورسٹیوں کو منتقل کر دیا جائے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ”اس تناظر میں ہڑتال کا کوئی جواز نہیں رہتا“۔
اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں پروفیسروں نے حال ہی میں سوات اسلامک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹرفاروق کے دن دہاڑے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اُن کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیاہے جب کہ تقریباً ایک ماہ قبل اغواء کیے گئے اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان کو بازیاب کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
صوبہ خیبر پختون خواہ میں حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے انتظامات کر رکھے ہیں تاہم انفراد ی طور پر اساتذہ اور دانشوروں کو سکیورٹی فراہم کرنا ممکن نہیں ۔