قومی ڈیٹا بیس کے ادارے نادرا کے سابق سربراہ طارق ملک کا کہنا ہے کہ نادرا کے پاس 98 فی صد پاکستانیوں کے کوائف موجود ہیں جنہیں قومی پالیسی سازی، عوام کو بااختیار بنانے، خواندگی کی شرح بڑھانے، روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے، انتہا پسندی کے خاتمے سے متعلق پالیسی سازی کے لیے مؤثر طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جس کے پاس اپنی آبادی کے تمام ضروری کوائف پر مبنی ڈیجیٹل ریکارڈ موجود ہے۔
طارق ملک پچھلے دنوں ریاست اور فرد کی شناخت سے متعلق ورلڈ بینک کے ایک سیمینار کے سلسلے میں واشنگٹن آئے تو وائس آف امریکہ کی اردو سروس نے انہیں اپنے ٹیلی وژن شو 'کیفے ڈی سی' کے لیے مدعو کیا۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئِے طارق ملک کا کہنا تھا کہ آبادی کے انفرادي کوائف پر مبنی ڈیٹا بیس کا نظام کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے ریڑھی کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنے ملینیئم ترقیاتی اہداف کے 17 نکاتی ایجنڈے میں فرد کی شناخت کو شامل کیا ہے اور عالمی اداروں نے دنیا کے ان 40 ملکوں کی نشاندہی کرنے کے بعد جہاں شناخت سے متعلق ڈیٹا بیس کمزور ہے، اسے فعال بنانے کے لیے مالی معاونت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اردو سروس کے سربراہ اور شو کے میزبان فیض رحمن کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد ایک ارب پچاس کروڑ کے لگ بھگ ہے جن کے پاس اپنی کوئی قانونی شناخت موجود نہیں ہے۔ اپنی شناخت سے محرومی کی وجہ سے وہ غربت، معاشرتي نا ہمواریوں، غذائي قلت، اقتصادی عدم استحكام جسے مسائل سے نمٹنے میں اقوام متحدہ کے ملینیئم اہداف پر مبنی ترقیاتی پروگراموں کا صحیح طور پر فائدہ اٹھانے سے محروم ہیں۔
طارق ملک کا کہنا تھا کہ فرد اور ریاست کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ موجود ہوتا ہے۔ اگر لوگ اس معاہدے کے تحت حاصل اپنے حقوق سے محروم ہوں تو اس کی وجہ ان کے پاس اپنی شناخت کا نہ ہونا ہے۔ مثلاً آپ کو روزگار کے لیے، تعلیم کے حصول کے لیے، ووٹ ڈالنے کے لیے، بینک اکاؤنٹ اور قرض لینے کے لیے شناختی دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک کسی شخص کو معاونت فراہم نہیں کر سکتا جب تک کسی مستند دستاویز کی مدد سے وہ یہ تعین نہیں کرلیتا کہ امداد حاصل کرنے والا اس کا اپنا شہری ہے۔
نادرا کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے انتہائی جامع اور ترقی یافتہ ڈیٹا بیس پروگرام ترتیب دیا ہے۔ اس میں ڈیجیٹل تصویر اور ہاتھ کی تمام دس انگلیوں کے نشانات شامل ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت نے پاکستان کی تقلید کی۔ پاکستان نے اپنا ڈیجیٹل ڈیٹا بیس 2007ء میں شروع کیا تھا جب کہ بھارت نے اس کی ابتدا 2010ء میں کی۔
پاکستان میں اپنی خدمات کے حوالے سے طارق ملک کا کہنا تھا کہ میں 2007ء میں انتخابات کے ایک مبصر کے طور پر پاکستان گیا تھا۔ وہاں جا کر میں نے محسوس کیا جس ملک نے مجھے تعلیم دی اور پروان چڑھایا، اس کا مجھ پر حق ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ میں یہ قرض ادا کروں اور جس شعبے میں میری مہارت ہے اس میں اپنے ملک کے لیے کام کروں۔
ان دنوں پاکستان کو دہشت گردی سمیت جن مسائل کا سامنا تھا ان کی ایک بنیادی وجہ شناخت کے منظم نظام کا نہ ہونا تھا جس کے باعث ریاست کمزور ہو رہی تھی اور غیر ریاستی عناصر مضبوط ہو رہے تھے۔ اسی طرح ڈیٹا بیس نہ ہونے کے اثرات معاشی اور دوسرے شعبوں پر بھی پڑ رہے تھے۔
طارق ملک نے بتایا کہ جب میں نے 2008ء میں نادرا کا چارج لیا تو اسے مالی مشکلات کا سامنا تھا لیکن اب وہ ایک منافع بخش ادارہ ہے۔ اس وقت نادرا کے پاس ملک کے صرف 45 فی صد لوگوں کا ریکارڈ تھا اور رجسٹرڈ خواتین کی تعداد محض 28 فی صد تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ لوگ اپنا نام رجسٹرڈ کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ وہ اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ ہمیں لوگوں کو اس جانب راغب کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑی۔ گزشتہ پانچ سال کے عرصے میں خواتین کی رجسٹریشن میں 104 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے خواتین کے لیے کلی طور پر خواتین ہی کے اسٹاف پر منی رجسٹریشن سینٹر بنائے۔ پچھلے پانچ سال میں 27 لاکھ سے زیادہ اقلیتی شہریوں نے اپنے کوائف کا انداج کرایا۔
انہوں نے نادرا کے اسمارٹ کارڈ کے فوائد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تحت لوگوں کو حادثاتي انشورنس فراہم کی گئی ہے۔ حکومت اسے قومی ہیلتھ انشورنس کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔ اس کی چپ میں بچوں کے حفاظتی ٹیکوں اور تعلیم کا ریکارڈ رکھا جاسکتا ہے۔
طارق ملک نے بتایا کہ پاکستان بھر میں نادرا کے 537 دفاتر ہیں جو تحصيل کی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ نادرا کے پاس موبائل یونٹ ہیں جو دور دراز علاقوں میں جا کر موقع پر رجسڑیشن کرتے ہیں۔۔۔ ان کے بقول "ہم نے بلند ترین پہاڑوں کی چوٹیوں کے پاس رہنے والوں کی رجسٹریشن کے لیے بھی اپنی ٹیمیں بھیجیں۔"
گزشتہ عام انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب نادرا نے ووٹر لسٹیں اپ ڈیٹ کیں تو پتا چلا کہ 8 کروڑ میں سے 3 کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ لوگوں کا اندراج درست نہیں تھا۔ اور 3 کروڑ 60 لاکھ افراد ایسے تھے جو ووٹ دینے کا حق رکھتے تھے لیکن ان کے ووٹ کا اندراج نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے عام انتخابات کے موقع پر الیکشن کمشن دو ہزار مقامات پر ووٹر لسٹیں آویزاں کر دیتا تھا لیکن نادرا نے یہ سہولت فراہم کی لوگ اپنا ووٹ اپنے اسمارٹ فون پر بھی چیک کرسکتے ہیں۔ چنانچہ 6 کروڑ ووٹروں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا۔۔ یہ شفافیت کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
طارق ملک نے کہا کہ پاکستان کی ریاست ووٹ پر بنی تھی اور یہ ووٹ پر ہی قائم رہ سکتی ہے۔