ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی دارالحکومت کراچی میں ایک دوسرے کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے اور پولیس کے مطابق گذشتہ دو دنوں کے دوران صرف اورنگی ٹاؤن کے علاقے میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں 12 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ متعدد زخمی ہیں۔
اُدھر متاثرہ علاقوں میں صورت حال اتوار کو بھی کشیدہ رہی تاہم قانون نافد کرنے والے اہلکاروں کی اضافی نفری کی تعیناتی کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ صورتحال قابو میں ہے۔
وسیم احمد کراچی پولیس کے سربراہ ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ واقعات شہر میں دو لسانی جماعتوں کے درمیان تصادم کا نتیجہ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے اور یہاں مسائل بے تحاشہ ہیں اس لیے جب تک یہاں ضرورت کے مطابق پولیس کی نفری میں اضافہ اور شہر کو اسلحہ سے پاک نہیں کر دیا جاتا ان مسائل پر قابو پانا ممکن نہیں۔
ان کے بقول ”کراچی گھمبیر مسائل رکھنے والا شہر ہے اور یہاں پولیس کی نفری میں اضافے کی شدید ضرورت ہے کیوں کہ یہاں پر 523 افراد کے لیے صرف ایک پولیس اہلکار ہے۔ مزید یہ کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنی صفوں میں موجود شرپسند عناصر کو نہیں نکالیں گی اور شہر کو اسلحہ سے پاک نہیں کیا جائے گا اس شہر میں اس قسم کے مسئلے چلتے رہیں گے۔“
واضح رہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات کا سلسلہ جمعہ کی شب پشتون اکثریتی علاقے اورنگی ٹاوٴن میں عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر کھولنے پر شروع ہوا۔ جہاں نا معلوم افراد کی فائرنگ سے ان کا ایک کارکن ہلاک ہو گیا۔ تاہم سندھ حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور اے این پی اب تک ہونے والی ہلاکتوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ کراچی میں سیاسی بنیادوں پر قتل کیے جانے کے واقعات گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں اور صرف رواں سال جنوری کے پہلے دو ہفتوں میں لیاری ٹاؤن میں درجنوں افراد ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے تھے۔