کئی برسوں سے تعطل کے شکار توانائی کے ایک بڑے منصوبے "تاپی گیس پائپ لائن" کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے جسے توانائی کی کمی کے شکار پاکستان اور بھارت کے علاوہ جنگ سے تباہ حال افغانستان کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
اتوار کو ترکمانستان کے علاقے میری سٹی میں میزبان ملک کے صدر قربان گلی بردی محمدوف، پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف، افغانستان کے صدر اشرف غنی اور بھارت کے نائب صدر محمد حامد انصاری نے مشترکہ طور پر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔
دس ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت 1800 کلومیٹر طویل پائپ لائن کے ذریعے ترکمانستان سے قدرتی گیس افغانستان، پاکستان اور بھارت کو مہیا کی جائے گی۔
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ خطے کے ممالک میں امن و تجارت کے فروغ میں معاون ثابت ہو گا۔
"تاپی صرف گیس کی ترسیل کا منصوبہ نہیں جو توانائی سے مالا مال وسطی ایشیا کو توانائی کی کمی کے شکار جنوبی ایشیا سے جوڑ رہا ہے بلکہ یہ خطے میں اقتصادی تعاون اور روابط کو مضبوط بنانے کے لیے ایک امید افزا منصوبہ ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ "تاپی جیسے منصوبوں سے ہم خطے میں امن و خوشحالی کے مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔"
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ خطے میں توانائی کا منظر نامہ تبدیل کر دے گا اور ان کے بقول تاپی منصوبہ مختلف شعبوں میں اس خطے میں پیش رفت کی بے پناہ قابلیت کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ منصوبہ متوقع طور پر 2019ء میں مکمل ہو گا جس سے پاکستان کو یومیہ 1325 ملین مکعب فٹ قدرتی گیس حاصل ہو سکے گی۔
اس موقع پر پاکستان، افغانستان اور ترکمانستان کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی دستخط ہوئے جس کے تحت پاکستان، ترکمانستان سے براستہ افغانستان بجلی بھی درآمد کرے گا۔
گو کہ تاپی منصوبے کو امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے اور چاروں ملک دو دہائیوں سے زائد عرصے سے اس پر پیش رفت کے لیے کوشاں رہے ہیں لیکن اس گیس پائپ لائن کا ایک بڑا حصہ افغانستان سے ہو کر پاکستان پہنچنا ہے اور اسی تناظر میں اس منصوبے کی بحفاظت تکمیل سے متعلق بھی خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
سلامتی کے امور کے ماہر محمود شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ منصوبے پر پیش رفت حوصلہ افزا ہے لیکن خصوصاً افغانستان میں امن قائم کیے بغیر ایسے بین الاقوامی منصوبے کی تکمیل ایک کڑی آزمائش ہوگی۔
پاکستان کو حالیہ برسوں میں توانائی کی شدید قلت کا سامنا رہا ہے جس سے نہ صرف گھریلو صارفین کے لیے مشکلات بڑھی ہیں بلکہ صنعتی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا اور ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کو درکار توانائی کی 50 فیصد ضروریات پوری ہو سکیں گی۔