افغانستان میں ایک ہی روز ہونے والے دو مختلف مہلک خودکش بم دھماکوں کے بعد ملک کی قیادت کی طرف سے شہریوں کو نشانہ بنانے والے عسکریت پسندوں سے بات چیت نہ کرنے کے بیانات نے مصالحتی عمل کی کوششوں سے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
ہفتہ کو مشرقی صوبے کنڑ میں ایک خودکش بم دھماکے میں کم ازکم 13 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کے کچھ گھنٹوں بعد دارالحکومت کابل میں بھی ایک خودکش حملہ ہوا جس میں 12 افراد مارے گئے۔
کابل حملے کی ذمہ داری طالبان کی طرف سے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے قبول کی تھی۔
ان حملوں کے بعد صدر اشرف غنی کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ ان کی حکومت ان عسکریت پسند دھڑوں سے امن بات چیت نہیں کرے گی جو افغان شہریوں کو ہلاک کرتے ہیں اور افغان فورسز دہشت گردوں کے خلاف اپنی لڑائی کو مہمیز کریں گی۔
ایسا ہی ایک بیان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کی طرف سے بھی دیا گیا۔
افغان مصالحتی عمل میں پیش رفت کے لیے افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ کے حالیہ اجلاس میں امن بات چیت کی بحالی پر زور دیتے ہوئے توقع ظاہر کی گئی تھی کہ یہ سلسلہ آئندہ ماہ کے پہلے ہفتے میں شروع ہو سکتا ہے۔
افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تشدد کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں اور افغان فورسز کی طالبان کے خلاف کارروائیاں بھی جاری رہی ہیں لیکن بات چیت کا عمل شروع نہیں ہوتا تو بدامنی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
"یہ تو جنگ ہو رہی ہے جس سے ظاہر ہے حالات خراب ہوں گے اور بات چیت میں کافی مشکلات پیش آئیں گی۔ افغان حکومت، افغان طالبان ان کو بالآخر بات چیت تو کرنی ہے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کریں گے تو ان کو بھی فائدہ ہو گا اور افغانستان کی عوام کو بھی فائدہ ہو گا۔"
افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان گزشتہ جولائی میں پہلی براہ راست ملاقات پاکستان کی میزبانی میں ہوئی تھی لیکن یہ سلسلہ ایک ہی دور کے بعد بوجوہ تعطل کا شکار ہو گیا۔
اس دوران طالبان کی آپسی مسلح چپقلش کے علاوہ جنگ سے تباہ حال ملک میں تشدد پر مبنی کارروائیوں میں اضافہ بھی دیکھا گیا جس سے مذاکراتی عمل کی بحالی کی امیدیں کمزور ہوتی گئیں۔
تاہم گزشتہ دسمبر میں اس عمل کی بحالی کے لیے چار فریقی گروپ کی تشکیل کے بعد کوششوں کو تیز کیا گیا تھا۔