پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ کی جانب سے بالواسطہ طور پر ان کی تحریک پر تنقید کے بعد کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ بعض طالبان جو ایک فوجی افسر کے ساتھ نظر آتے ہیں، انہیں اور ان کے ساتھیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے پروگرام جہاں رنگ میں اسد حسن کےساتھ خصوصی انٹرویو میں منظور پشتین نے کہا کہ ان کی تحریک صرف پاکستانی پشتونوں کے حقوق کے لیے ہے نہ کہ افغانستان کے پشتونوں کے لیے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کی رہائی نہیں، ان کی عدالت میں پیشی، فاٹا اور قبائلی علاقوں سے فوجی چوکیوں کا خاتمہ نہیں بلکہ ان چوکیوں پر موجود اہلکاروں کے رویے میں بہتری اور ماورائے عدالت قتل کے مقدمات میں ایک عدالتی کمشن کی تشکیل ان کے بنیادی مطالبات ہیں جو پاکستان کے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی تحریک کو سیاسی تحریک میں نہیں بدلنا چاہیں گے کہ پہلے ہی بقول اُن کے ’’ وہ را اور این ڈی ایس جیسےبھارتی اور افغان خفیہ اداروں کے ایجنٹ جیسے گندے گندے الزامات کر سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
پی ٹی ایم کے سربراہ نے بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھیوں سمیت کل 22 دوستوں نے تحریک شروع کی تھی۔ انہیں امید نہیں تھی کہ یہ اتنی بڑی تحریک بن جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ان کی تحریک سے متلعق بالواسطہ بیان سے کروڑوں پشتونوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور ان کے بقول اس بیان سے یہ تاثر ملتا ہے کہ فوج کے سربراہ نے پشتونوں کو اپنا نہیں سمجھا۔ منظور پشتین نے کہا کہ اس پوری تحریک میں ان کا براہ راست سکیورٹی اداروں سے رابطہ پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور سے ملاقات کی صورت میں ہوا۔ یہ اسلام آباد میں ابتدائی دھرنے کے دنوں میں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی سے ملاقات کے دوران ہوئی تھی۔ اس کے بعد کوئی رابطہ نہیں۔ البتہ ان کے بقول ڈیرہ اسماعیل خان میں تعینات ایک فوجی افسر کے ساتھ رابطے والے بعض طالبان ہمارے لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان زندہ باد نامی تحریک جو دراصل ان کی تحریک کی مخالفت میں شروع ہوئی، اس کے سٹیج پر کون ہوتا ہے، ہم بتا نہیں سکتے۔
’’ہم یہ باتیں نہیں کر سکتے کہ ان کے سٹیج پر کون کون ہوتا ہے۔ کیونکہ اس گروپ کے بہت سارے لوگ ڈی آئی خان کینٹ میں رہتے ہیں اور وہاں ہمارے بہت سے سٹوڈنٹس ہیں جن کے لیے پھر خطرہ بن جاتا ہے۔ یہ وہی ہیں جو فوجیوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ اب ہمیں بھی تنگ کر رہے ہیں‘‘ ۔ لیکن ہم کوئی بھی قیمت دینے کے لیے تیار ہیں۔
منظور پشتین نے کہا کہ ان کی تحریک پر فوج کے سربراہ کے بیان کے بعد فرق نہیں پڑا ۔ لوگ اپنی مرضی سے اس میں شامل ہو رہے ہیں اورمارچ یا جلسے کے دوران رکھے فنڈز والے گلّے میں پیسے بھی ڈال جاتے ہیں۔
’’ میں اگر چاہوں تو ایک گھنٹے میں عام لوگوں سے دس کروڑ چندہ جمع کر سکتا ہوں۔‘‘ ان کے بقول سب لوگ اپنی مرضی سے اس مقصد کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کی فوج یا کسی ادارے کے خلاف نہیں ہیں۔ پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے مطالبات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرا کسی غیر ملکی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ ہمارے ساری کوششیں اور اپیلیں اپنے اداروں اور اپنے لوگوں کے سامنے ہیں۔ فنڈنگ سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر پاکستانی میڈیا نے ان کے خلاف ان کے بقول ’’جانبدارانہ‘‘ رویہ رکھتے ہوئے بلیک آؤٹ نہ کیا ہوتا تو پوری قوم کو فنڈباکس نظر آتے۔
منظور پشتین نے کہا کہ اگر پشتونوں کے علاوہ دیگر کمیونیٹیز کے لاپتا افراد کے گھر والے بھی ان سے رابطہ کریں تو وہ ان کی بازیابی اور عدالت میں پیشی کے لیے آواز اٹھائیں گے۔
سابق فوجی افسر بریگیڈیر ریٹائرڈ عمران ملک نے منظور پشتین کی تحریک سے متعلق پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان کی حمایت کی اور کہا کہ انہوں نے بروقت قوم کو سازش سے آگاہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا منظور پشتین کی تحریک میں جان اس وقت پڑی ہے جب ان کے بقول افغان صدر اشرف غنی نے ان کی حمایت کی۔
بریگیڈیر عمران نے پاکستان کے کسی فوجی افسر کے طالبان کے ذریعے ان کو دھمکانے کی بات پر ردعمل میں کہا کہ منطور پشتین سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ اس سے پاکستان یا پاکستان کی افواج کو کیا فائدہ ہو گا۔
پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو روز قبل ایک تقریب سے خطاب میں اپنی فوج کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ بڑی قربانیاں دینے کے بعد اب وہ فاٹا اور ملک بھر میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور اب فاٹا میں کچھ لوگوں نے نئی تحریک شروع کر دی ہے۔ پاکستان کے اندر اور باہر کچھ لوگ جو امن کے درپے ہیں، ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک قوم پاکستان کی فوج کے پیچھے کھڑی ہے، پاکستان کو کچھ نہیں ہو سکتا۔
بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک فوج کے سربراہ کا اپنے اس بیان میں اشارہ پشتون تحفظ موومنٹ کی جانب تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر بعض نامور تجزیہ کاروں نے اپنے ٹویٹس میں کہا کہ منظور پشتین پر الزامات کی بجائے ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔