افغان طالبان نے کہا ہے کہ بین الافغان امن بات چیت کا نیا دور آئندہ ہفتے چین میں ہوگا۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے منگل کے روز بتایا ہے کہ یہ مذاکرات 28 اور 29 اکتوبر کو ہونے والے ہیں۔
ماہرین کے مطابق 18 برس سے جاری افغان جنگ میں تیزی آ چکی ہے، تاہم اس اعلان کے نتیجے میں امن مذاکرات کے حوالے سے نئی توقعات پیدا ہوئی ہیں۔
ادھر، امریکی محکمہ خارجہ کی اطلاع کے مطابق، ایک روز قبل امریکی ایلچی برائے افغان مفاہمت، زلمے خلیل زاد نے یورپی، نیٹو اور اقوام متحدہ کے اتحادی ملکوں سے بات چیت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے، جس کا مقصد لڑائی کے خاتمے کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسو سی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق زلمے خلیل زاد روسی اور چینی نمائندوں سے بھی ملاقات کریں گے، جس میں ’افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے مشترکہ مفادات پر بات کی جائے گی۔‘‘
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن بات چیت کا پچھلا دور ستمبر میں کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا تھا اور کابل میں ایک دھماکے میں امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد صدر ٹرمپ نے مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
بین الافغان امن بات چیت کے سلسلے میں افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس سے متعلق گفتگو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
اس حوالے سے کابل میں افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان کبیر حقمل نے وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو بتایا ہے کہ بین الافغان مکالمے کے انعقاد کی بات جب حکومتِ افغانستان سے کی گئی تو حکام کا کہنا تھا کہ معاملہ ابھی زیر غور ہے۔
سابق مجاہدین کمانڈر، محمد اسماعیل خان، جنھیں چین میں ہونے والی بین الافغان بات چیت کے لیے مدعو کیا گیا ہے، کا کہنا ہے کہ دو روزہ مذاکرات میں تقریباً 25 افغان سیاست دان شریک ہوں گے جس میں وہ بھی شامل ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو مزید بتایا کہ یہ کانفرنس 29 اور 30 اکتوبر کو ہوگی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی سہیل شاہین کے بیان کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کے ڈپٹی چیف برادر اخونزادہ نے اپنے وفد کے ہمراہ چین کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان اور چین کے قطر میں سفیر سے ملاقات کی ہے۔ ملاقات میں بیجنگ میں ہونے والی بین الافغان کانفرنس کے بارے میں گفتگو ہوئی۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ چین نے طالبان کے وفد کو برادر اخونزادہ کی سربراہی میں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ یہ کانفرنس روس اور قطر میں ہونے والی کانفرنسوں کا تسلسل ہوگی جس میں شامل تمام افراد افغانستان کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی ذاتی رائے اور تجاویز پیش کریں گے۔
افغانستان کی وزارت برائے امن نے خلیل زاد کی ان نئی کوششوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ وزارت کی ترجمان، نجیہ انوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان حکومت بات چیت کے اس نئے دور کا خیر مقدم کرتی ہے۔ تاہم امن عمل افغان قیادت اور افغان سرپرستی میں ہی منعقد ہونا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو، ان کے بقول، یہ عمل کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے برسلز، پیرس اور ماسکو میں ملاقاتوں کا آغاز کر دیا ہے۔