افغانستان میں 28 ستمبر سے شروع ہونے والے صدارتی انتخاب کے دوران ایک صوبہ ایسا بھی تھا جس میں طالبان نے انتخابی عمل کو کامیاب بنانے میں تعاون کیا ہے۔
افغانستان کے صوبے کنڑ کے قصبے منرو میں داعش نے انتخابات سے قبل دھمکی دی تھی کہ اگر کسی شخص کو پولنگ اسٹیشن کی جانب جاتے دیکھا گیا تو وہ نہ صرف اسے قتل کردیں گے بلکہ پولنگ اسٹیشن کا انتخابی سامان بھی تباہ کردیں گے۔
انتخابی عملے کے ایک رکن صابر نے بتایا کہ 27 ستمبر کی صبح اسے یہ اطلاع ملی کہ داعش کے جنگجو پولنگ اسٹیشن پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
صابر کے بقول وہ بے روزگار تھا اور انتخاب کے روز اجرت ملنے کی اُمید میں وہ اور اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ خطرے کے باوجود پولنگ اسٹیشن پہنچ گیا۔ اسے اس روز کام کرنے کے لیے 12 ڈالر کی پیشکش کی گئی تھی۔
وہاں کے ایک شہری اجمل نے کہا کہ داعش کے لوگ اس کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور وہ عام طور پر اس وقت تک کسی کو تنگ نہیں کرتے تھے جب تک اُنہیں شبہ نہ ہو کہ کوئی شخص حکومت کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس کے باوجود اسے خطرہ تھا کہ ووٹ ڈالنے کی صورت میں داعش کے وہی لوگ اس کی انگلیاں کاٹ سکتے ہیں۔
انتخاب کے دن ایک غیر معمولی صورت حال پیش آئی جب طالبان نے اس علاقے کا انتظام سنبھال لیا اور وہ انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔
صابر اور اجمل نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ عائشہ تنظیم کو بتایا کہ وہ ووٹ ڈالنے کے لیے صبح چھ بجے پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے۔ انہوں نے طالبان کارکنوں کو پولنگ اسٹیش سے 20 میٹر دور کھڑا پایا۔ انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ طالبان تھے یا داعش کے لوگ تھے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جو لوگ ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں، وہ ضرور ڈالیں۔ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
علاقے کے لوگوں کو طالبان کی ہدایت پر یقین کرنے میں کچھ وقت لگا اور پھر وہ ووٹ ڈالنے کے لیے ساڑھے نو بجے کے بعد آنا شروع ہوگئے۔ بالآخر صابر کے پولنگ اسٹیشن پر لگ بھگ ڈیڑھ سو افراد نے ووٹ ڈالا جن میں دو درجن خواتین بھی شامل تھیں۔
داعش سے چھینے گئے اس علاقے پر طالبان کا کنٹرول بدستور قائم ہے۔