افغانستان میں حکام نے بتایا ہے کہ درجنوں طالبان جنگجوؤں نے اپنے غیر ملکی عسکریت پسند ساتھیوں کے ساتھ مل کر شمال مشرقی صوبہ بدخشاں میں سکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کر لیا جسے بعد میں واگزار کروا لیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جنگجوؤں سے قبضہ تو چھڑوا لیا گیا ہے لیکن انھیں کابل کی طرف سے اہلکاروں کی مزید نفری کی اشد ضرورت ہے۔
جنگ سے تباہ حال اس ملک میں ہر سال موسم بہار میں طالبان عسکریت پسندوں کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
صوبہ بدخشاں کے حکومتی ترجمان نوید فروتان کے مطابق لڑائی کے دوران 18 افغان فوجی اور پولیس اہلکار مارے گئے جب کہ دس زخمی ہوئے۔ ان کے بقول مارے جانے والوں میں سےآٹھ کا سرقلم کیا گیا۔
"صورتحال اب قابو میں ہے لیکن قریبی پہاڑیوں کی طرف فرار ہو جانے والے طالبان جنگجو وقفے وقفے سے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کر رہے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ لڑائی میں 19 عسکریت پسند مارے گئے جن میں سے 11 افغان طالبان تھے جب کہ آٹھ کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ غیر ملکی عسکریت پسند تھے۔
وزارت دفاع کے مطابق کم ازکم 200 طالبان جنگجوؤں نے بدخشاں کے علاقے میں جمعہ کو دھاوا بولا اور اس لڑائی میں 20 شدت پسند ہلاک ہوئے جب کہ افغان فورسز کے 33 لوگ یا تو مارے گئے، زخمی ہوئے یا لاپتا ہوئے ہیں۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انھوں نے "49 کٹھ پتلیوں" کو ہلاک اور 42 کو زخمی کیا۔
دو سال قبل تک بدخشاں ملک کا نسبتاً پرامن صوبہ تصور کیا جاتا تھا لیکن اب یہاں بھی شدت پسندوں کی کارروائیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔