افغان طالبان نے افغانستان میں نئے آئین کا مطالبہ کرتے ہوئے افغان تنازع کے حل کے بعد ملک میں ’سب کی شرکت سے ایک اسلامی نظام’ قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
طالبان نے یہ مطالبہ روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغان سیاسی رہنماؤں اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں کیا ہے۔
طالبان کی طرف سے نئے آئین کا مطالبہ طالبان اور امریکہ کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان تنازع کے حل کے لیے ہونے والے مذاکرات کے ایک ہفتے کے بعد سامنے آیا ہے۔
اگرچہ دوحہ اور ماسکو میں ہونے والی بات چیت ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ الگ ہیں۔ تاہم، ان دونوں طرح کی بات چیت میں افغان حکومت کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
ماسکو اجلاس کے دوران افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی بات چیت میں طالبان سابق صدر حامد کرزئی کے ہمراہ ایک ساتھ نماز پڑی تھی جو ایک وقت میں ایک دوسرے کے سخت حریف رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی’ کے مطابق، طالبان وفد کے سربراہ شیر محمد عباس اسٹینکزئی نے ماسکو کے اجلاس کے دوران کہا ‘‘کابل حکومت کا آئین جائز نہیں ہے۔ یہ مغرب سے درآمد کیا گیا ہے اور یہ امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔’’
انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ آئین متنازع ہے۔ ہم ایک اسلامی آئین کے خواہاں ہیں، اس کا چارٹر اسلامی علما وضع کریں گے۔‘‘
اسٹینکزئی نے مزید کہا ہے کہ ’’طالبان افغانستان میں اجارہ داری کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ وہ سب کی شرکت کے ساتھ ایک اسلامی نظام کے متمنی ہیں‘‘۔
ماسکو امن مذاکرات میں کابل حکومت کے کسی نمائندے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم، افغان حزب اختلاف کے بعض رہنماؤں بشمول سابق صدر حامد کرزئی اور صدر اشرف غنی کے خلاف جولائی میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والے بعض دیگر افغان رہنما بھی شامل ہیں۔ اس کے خلاف افغانستان سے آنے والے وفد میں دو خواتین بھی شامل تھیں۔
امریکہ طالبان پر کابل حکومت سے براہ راست بات چیت پر زور دے رہا ہے۔ تاہم، طالبان، کابل حکومت سے براہ راست بات چیت پر تاحال آمادہ نہیں۔
دوسری طرف افغان صدر اشرٖف غنی کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے طالبان کو کابل حکومت سے بات چیت کرنا ہو گی اور وہ کسی عارضی امن معاہدے کو قبول نہیں کریں گے۔
گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں چھ روزہ بات چیت کے بعد خلیل زاد اور طالبان نے اپنے الگ الگ بیانات میں اعلان کیا تھا کہ طالبان کی طرف سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عوض مستقبل میں افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے کی یقینی دہانی کروانے سے متعلق معاہدہ طے پانے پر تقریباً اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
تاہم، خلیل زاد نے مزید پیش رفت کے لیے جامع جنگ بندی اور افغانوں کے درمیان قومی مذاکرات کے عمل میں طالبان کی شرکت پر زور دیا ہے۔
دوسری طرف صدر ٹرمپ نے منگل کی رات اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کے دوران افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی انتظامیہ طالبان سمیت کئی دیگر افغان گروپوں سے تعمیری بات چیت کر رہی ہے۔
ٹرمپ کے بقول ‘‘ان مذاکرات میں پیش رفت کی صورت میں ہی امریکہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کر کے اپنی توجہ انسداد دہشت گردی پر مرکوز کر سکے گا۔ ’’
ٹرمپ نے مزید کہا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ افغان تنازع کے حل کے لیے کوئی معاہدہ طے ہو گا یا نہیں؟ تاہم، انہوں نے کہا کہ وہ ’’یہ ضرور جانتے ہیں کہ دو دہائیوں کی جنگ کے بعد امن کے لیے کوشش کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ’’
ٹرمپ کے بقول، اس وقت دوسرا فریق بھی ایسا ہی کرنے کا خواہاں ہو گا۔
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے: