رسائی کے لنکس

85 فی صد افغانستان ہمارے کنٹرول میں ہے؛ طالبان کا دعویٰ


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان کا 85 فی صد علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے اور انہوں نے امریکہ سے افغان انتظامیہ پر حملے نہ کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

روس کے دورے کے موقعے پر طالبان مذاکرات کار شہاب الدین دلاور نے دیگر طالبان رہنماؤں عبد اللطیف منصور اور سہیل شاہین کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے 85 فی صد علاقے پر طالبان کا کنٹرول ہے جس میں ملک کے 398 میں سے 250 اضلاع شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق شہاب الدین دلاور کا کہنا تھا کہ طالبان افغانستان میں انتظامی مراکز پر حملے کرنے کے لیے آزاد ہیں کیوں کہ انہوں نے امریکہ سے ان پر حملہ نہ کرنے کا کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔

البتہ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان کسی صوبے کے دارالحکومت پر بزور قبضہ نہیں کریں گے۔

شہاب الدین دلاور نے 2020 میں امریکہ سے ہونے والے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں افغان حکومت فریق نہیں ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے تین صفحات پر مشتمل اس معاہدے میں افغانستان سے غیر ملکی اور امریکی افواج کے انخلا کا خاکہ اور یہ ضمانت بھی موجود ہے کہ افغان سر زمین امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ لیکن اس میں جنگ بندی شامل نہیں ہے بلکہ اس نکتے کو مستقبل کے بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق طالبان رہنماؤں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ تمام نسلی اقلیتوں کا احترام کرتے ہیں اور تمام شہریوں کو اسلامی قانون اور افغان روایات کی حدود میں رہتے ہوئے مناسب تعلیم کا حق حاصل ہے۔

ماسکو میں طالبان عہدے داران (دائیں سے بائیں) سہیل شاہیں، شہاب الدین دلاور اور عبداللطیف منصورپریس کانفرنس کررہے ہیں۔
ماسکو میں طالبان عہدے داران (دائیں سے بائیں) سہیل شاہیں، شہاب الدین دلاور اور عبداللطیف منصورپریس کانفرنس کررہے ہیں۔

شہاب الدین دلاور کے بقول’ہم چاہتے ہیں افغان معاشرے کے تمام نمائندے ایک افغان ریاست کی تشکیل میں اپنا حصہ شامل کریں۔‘

افغانستان کی صورتِ حال

جمعے کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں یہ پریس کانفرنس اس وقت کی جا رہی تھی جب شمالی اور مغربی افغانستان میں طالبان کی شدید حملوں کے باعث افغان فورسز کو مشکلات کا سامنا ہے۔

شمالی افغانستان میں طالبان کے حملوں کے بعد رواں ہفتے ایک ہزار سے زائد افغان فوجی اہل کار تاجکستان فرار ہوگئے تھے۔

افغان حکام نے طالبان کے قبضے میں جانے والے اضلاع واپس لینے کے عزم کا اظہار کیا ہے اور شمالی افغانستان میں کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سیکڑوں کمانڈو تعینات کیے ہیں۔

شمالی افغانستان میں جھڑپوں کے باعث صوبہ بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں روس کو اپنا قونصل خانہ بند کرنا پڑا تھا۔

دوسری جانب افغانستان میں طالبان کے مخالف گروپس کی جانب سے بھرپور مزاحمت کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔

دریں اثنا طالبان نے جمعے کو مغربی حصے میں ایران کی سرحد پر سب سے بڑی گزرگاہ کا کنٹرول حاصل کرنے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ اسلام قلعہ مکمل طور پر طالبان کے کنٹرول میں آ گیا ہے اور وہاں جلد آمد ورفت بحال کر دی جائے گی۔

افغان حکومت کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

روس کے لیے پیغام

ماسکو میں ہونے والی پریس کانفرنس میں طالبان رہنماؤں نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ خطے اور بالخصوص وسطی ایشیا میں روسی مفادات کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنیں گے۔

قبل ازیں روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا کا کہنا تھا کہ ماسکو اپنے اتحادی تاجکستان پر جارحیت روکنے کے لیے اضافی اقدامات کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روس افغان تنازع کے تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ وہ کشیدگی کو ملک سے باہر پھیلنے سے روکیں۔

پاکستان اس بار افغان پناہ گزینوں کو قبول نہیں کر سکتا: معید یوسف
please wait

No media source currently available

0:00 0:13:03 0:00

صدر بائیڈن کا اعلان

واضح رہے کہ طالبان کا افغانستان کے 85 فی صد علاقوں پر کنٹرول کا دعوٰی امریکہ کے صدر بائیڈن کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ہی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے 31 اگست تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا مکمل ہونے کا اعلان کیا ہے۔

اس سے قبل انہوں نے نائن الیون حملوں کی بیسویں برسی کے موقعے پر 11 ستمبر کو انخلا مکمل کرنے کا اعلان کیا تھا۔

صدر بائیڈن نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا چاہیے۔

صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں۔

طالبان کی جانب سے صدر بائیڈن کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا تھا جب کہ افغان حکومت کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہونے کے طالبان کے دعوے پر افغان حکومت کا فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ قبل ازیں افغان فورسز یہ دعوی کرتی رہی ہیں کہ وہ ایسے تمام علاقے جن پر عسکریت پسندوں کا قبضہ ہوچکا ہے، وہ انہیں واپس اپنے کنٹرول میں لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔

اس خبر میں معلومات خبر رساں اداروں ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG