کابل ایئرپورٹ سے افغان شہریوں اور غیرملکیوں کا انخلا جاری
حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر امریکی خاتون سیکیورٹی اہلکار ایک خاتون کی تلاشی لے رہی ہیں۔
افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے افغان شہریوں اور غیر ملکیوں کے انخلا کا عمل جاری ہے اور اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ملک چھوڑ چکے ہیں۔
'طالبان بہت جلد نئی حکومت کا اعلان کر سکتے ہیں'
طالبان کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ افغانستان میں حکومت سازی حتمی مراحل میں ہے جب کہ طالبان بہت جلد اپنی کابینہ کا بھی اعلان کر دیں گے جس میں گروپ کی رہبری شوریٰ کے تمام اراکین شامل ہوں گے۔
طالبان کے فیصلوں کے حوالے سے حتمی اختیار امیر کے پاس ہوتا ہے۔ البتہ وہ اپنے بیش تر فیصلے مشاورت سے کرتے ہیں۔ اس مشاورتی عمل کے لیے امیر کے ماتحت ایک شوریٰ ہے جسے 'رہبری شوریٰ' کا نام دیا گیا ہے جن کے اراکین کی تعداد 25 کے لگ بھگ ہے۔
اطلاعات کے مطابق طالبان کے سربراہ طالبان کے گڑھ قندھار میں حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی اور طالبان کے بانی امیر ملا محمد عمر کے صاحبزادے ملا محمد یعقوب سمیت دیگر سینئر طالبان رہنماؤں کے ہمراہ حکومت سازی کے لیے مشاورت کر رہے ہیں۔
طالبان رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے جمعے کو ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہونے والے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ طالبان افغانستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور نسلی گروہوں کے ساتھ بھی مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ جامع حکومت کے لیے افغانستان کے تمام دھڑوں کو اعتماد میں لیں تاکہ اس حکومت کو دنیا تسلیم کر سکے۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے کے قریب ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ سراج الدین حقانی اور ملا محمد یعقوب کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ کابینہ کے ارکان کے ناموں کو حتمی شکل دیں جس کی باقاعدہ منظوری بعدازاں طالبان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ اخونزادہ دیں گے۔
ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ نئی کابینہ میں 26 سے زائد اراکین ہو سکتے ہیں جن میں رہبری شوریٰ کے علاوہ طالبان کے دیگر رہنما بھی شامل ہوں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ طالبان کے سربراہ خود ٹی وی پر آ کر نئی حکومت کا اعلان کریں۔ تاہم اگر وہ سامنے آنے سے گریز کریں گے تو کوئی بھی سینئر طالبان رہنما یہ اعلان کرے گا۔
افغان جنگجو سرداروں کا طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نیا اتحاد بنانے کا اعلان
طالبان کے کٹر مخالف سمجھے جانے والے جنگجو سرداروں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا ہے جس کے لیے ایک نیا اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق صوبہ بلخ کے سابق گورنر سردار عطا محمد نور کے صاحبزادے خالد نور نے دعویٰ کیا ہے کہ نئے گروپ میں عبدالرشید دوستم سمیت دیگر افغان جنگجو سردار بھی شامل ہوں گے۔
نامعلوم مقام سے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے خالد نور کا کہنا تھا کہ ہم مشترکہ طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی ایک فریق افغانستان کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی برادری اور وہ جنگجو سردار جنہیں عوامی حمایت حاصل ہے وہ مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کریں۔
خیال رہے کہ مزار شریف کے طالبان کے کنٹرول میں جانے کے بعد عبدالرشید دوستم اور عطا محمد نور افغانستان سے چلے گئے تھے۔
طالبان کا افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے سے نہ روکنے کا اعلان 'مثبت' ہے، امریکہ
امریکہ نے طالبان کے اس عزم کو سراہا ہے کہ 31 اگست کے بعد افغانستان سے کسی کو باہر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ صدر جو بائیڈن نے امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے لیے 31 اگست کی ڈیڈ لائن کا اعلان کر رکھا ہے۔
وائس آف امریکہ کے لیے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق افغان امن عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ہفتے کو یہ بیان طالبان کے مرکزی رہنما کے افغان عوام سے خطاب کے بعد دیا ہے۔
طالبان رہنما شیر محمد عباس ستنکزئی نے جمعے کو ٹی وی اور ریڈیو پر نشر ہونے والے بیان میں کہا تھا کہ درست دستاویزات اور پاسپورٹ رکھنے والے افغان شہری ڈیڈلائن کے بعد بھی اپنی پسند کے ملک میں سفر کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ وہ زمین یا فضا کے ذریعے سفر کر سکیں گے۔
زلمے خلیل زاد نے اس بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ "یہ مثبت بیان ہے۔ تاہم ہمارے اتحادی اور عالمی برادری یہ یقینی بنائے گی کہ وہ (طالبان) اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔"
شیر محمد عباس ستنکزئی کے افغان عوام سے خطاب کا مقصد بظاہر ان خدشات کو دُور کرنا تھا کہ طالبان 31 اگست کے بعد ملکی یا غیر ملکی شہریوں کو محفوظ راستہ نہیں دیں گے۔
ستنکزئی کا کہنا تھا کہ پہلے غیر ملکی فورسز انخلا مکمل کریں اور پھر ہمارے ہم وطن جو آیا امریکیوں یا کسی اور کے ساتھ کام کر چکے ہیں، اگر کسی بھی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں تو وہ جا سکتے ہیں۔ تمام ایئرپورٹ بالخصوص کابل ایئرپورٹ ان کے سفر کے لیے کھلا ہو گا۔