افغان صحافیوں کا گروپ میکسیکو پہنچ گیا
میکسیکو کی حکومت کی جانب سے ایک خصوصی آپریشن کے ذریعے افغانستان سے 124 افغان اور بین الاقوامی صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو نکال لیا گیا ہے۔ مزید جانئے اس رپورٹ میں۔
’پاکستان چاہتا ہے امریکہ طالبان سے سفارتی رابطوں کا کوئی طریقہ وضع کرے‘
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے مفاد میں ہے کہ باہمی تعلقات میں ماضی کے مسائل کو نظر انداز کر کے مل کر کام کریں۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان میں مل کر کام کرنے میں ہی امریکہ اور پاکستان کا مفاد ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد باہمی تعلقات کو بہتر کریں۔
معید یوسف نے یہ بات ایک ایسے وقت میں کہی ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا 31 اگست تک مکمل ہونا ہے۔ دوسری جانب افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بھی صورتِ حال غیر یقینی ہے۔
انٹرویو میں قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ افغانستان میں عدم استحکام کے نتیجے میں پاکستان میں مزید دہشت گردی، مہاجرین کی آمد اور اقتصادی مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے بڑے اور اہم ملک کو دور رکھ کر کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟
پاکستان پر افغانستان میں طالبان کی حمایت کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔ اسلام آباد میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد پاکستان کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد انتہا پسندی کے خلاف لڑتے ہوئے ہلاک ہوئی ہے۔
افغانستان کے امور کے ماہر احمد رشید کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت مغربی ممالک کی بہت سخت ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضوں کے حصول اور سرمایہ کاری کی ضمانت بھی یہی ممالک کر سکتے ہیں۔
مزید جانیے
کیا افغانستان میں طالبان کو داعش سے خطرہ ہے؟
کابل ایئرپورٹ کے باہر جمعرات کو ہونے والے دھماکوں میں ہلاک افغان شہریوں کی تعداد 90 تک پہنچ گئی ہے جب کہ 100 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ دہشت گرد گروپ داعش نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ افغانستان کی سیکیورٹی کی صورت حال پر مزید جانتے ہیں وی او اے کی عائشہ تنظیم سے اسد اللہ خالد کی گفتگو میں۔
طالبان کو پیچیدہ معاشی بحران کا سامنا، عوام کی مشکلات میں اضافے کا امکان
طالبان رہنماؤں نے اپنی تحریک کے اندر سے ایک غیر معروف شخصیت محمد ادریس کو ملک کے مرکزی بینک 'دا افغانستان بینک' کا سربراہ مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ ادریس بینکنگ کے مسائل اور لوگوں کے مسائل کو حل کریں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی معیشت کو سنبھالنا کسی کے لیے بھی ایک مشکل کام ہو گا، کیونکہ یہ واضح نہیں ہے کہ ادریس یا طالبان قیادت میں سے کوئی بھی شخص اس معاشی خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کا اس وقت افغانستان کو سامنا ہے۔
کابل پر طالبان کے قبضے سے ایک دن قبل ملک سے فرار ہونے والے مرکزی بینک کے سابق گورنر اجمل احمدی نے بلوم برگ کو بتایا تھا کہ طالبان نے ملکی معیشت سے نمٹنے کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا، "میں نے کبھی ان کی ٹیم کے کسی ماہر معاشیات کے بارے میں نہیں سنا۔
سن 2013 سے 2015 تک افغانستان کے کسٹم اور محصولات کے نائب وزیر کے طور پر فرائض سرانجام دینے والے گل مقصود سبط کہتے ہیں کہ طالبان کو معیشت سنبھالنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔